تبدیلی کائنات کا نظام مگر اسے تخریبی نہیں تخلیقی بنائیں

نظام عالم میں ہر آن تغیر ہے ہر شئے بدلتی ہے اور اسی قانون سے زندگی کو رونق ملتی ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی چیز مکمل نہیں ہوتی۔ ایک دور بیت جاتا ہے تو دوسرا دور ہر شئے کو اپنے خاص نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے، پرکھتا ہے۔ یہ بات جب شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ قدیم طریقے ناکافی ہیں تو انسان نئی نئی سرگرمیاں تلاش کرتا ہے یہی بات ہمیں تبدیلی کی طرف لے جاتی ہے اور یہ تبدیلی ایک فطری چال ہے۔ ہر دور کا معاشرہ اپنی الگ شناخت قائم کرتا ہے۔ آج سماج میں رائج کھانے پینے کے طورطریقے، رہن سہن، رسم و رواج، لباس فیشن اور جو نظریات و تصورات قابل قبول ہیں۔ دوسرا دور ان رائج طور طریقوں کو اپنے طور سے دیکھتا اور پرکھتا ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی تبدیلی کرکے اسے ایک نئے انداز سے روشناس کرواکے تبدیلی کی طرف قدم بڑھادیتا ہے۔ یہی تبدیلی زندگی کو ایک نیا پن دیتی ہے۔ انسانی فطرت میں تبدیلی کا جز شامل ہے اور انسان تبدیلی کے لئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔

یہ سب دراصل انسانی فطرت کی عکاسی ہے جو تبدیلی چاہتی ہے۔ تبدیلی اور حرکت کائنات کی حقیقت ہے اس کی بدولت ترقی کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آمد و رفت کے ذرائع اور ذرائع ابلاغ میں حیرت انگیز ترقی نے وقت اور فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ بینک کے سسٹم میں تبدیلی کا انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ کئی دنوں کے کام چند منٹوں میں ہونے لگے ہیں۔ پوسٹل سسٹم کے بھی انداز بدلے۔ اسپیڈ پوسٹ نے تو زندگی کی رفتار بڑھادی ہے۔ ہر طرف تبدیلی کا کہرام مچا ہوا ہے۔ انسان خود محو حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔ تبدیلی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے مگر بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں تبدیلی کا تصور تعمیر کے بجائے تخریب کے کانٹے اُبھارتا ہے اور کائنات کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔ بنیادی اخلاق میں تبدیلی ہوئی ہے۔ صبر و تحمل، ایثار و قربانی تبدیل ہونے لگی ہے۔ خود غرضی، نفرت، بے حسی، جھوٹ اور تشدد کا بول بالا ہے۔ جائز و ناجائز، سچ اور جھوٹ کا فرق تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ جھوٹ بولنا، مکاری عیب کے حدود سے نکل کر ضرور ت بن گئے ہیں۔ یہ صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ تبدیلی کے اس دور میں ہم اپنی ذات میں گم ہوگئے ہیں تخریبی نوعیت کے واقعات کو درگزر کرنے کی وجہ سے تخریبی واقعات ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں اور ہم تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے گا اور معاشرے کی بُرائیاں ختم کردے گا یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔ ضروری بات یہ ہے کہ انفرادی طور پر پہل کرنا وقت کا تقاضا ہے اور یہ معاشرے کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی چاہئے کہ ہم سچ بولیں۔ انصاف کا ساتھ دیں، صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، اپنوں کے تئیں خلوص اور ہمدردی اپنائیں۔