بے لگام بھگوا تنظیمیں

پہلے تو ہوا کرتے تھے ہر رنگ کے گھوڑے
اب آج کل تو صرف ہیں بھگوا ہی بے لگام
بے لگام بھگوا تنظیمیں
ملک میں بھگوا تنظیمیں ایک بار پھر بے لگام ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں عمداً بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے اور انہیں ایک منصوبہ دیا گیا ہے کہ وہ رام مندر ۔ بابری مسجد مسئلہ پر ایک بار پھر ملک بھر میںہذیان کی کیفیت پیدا کردیں اور ہندو ۔ مسلم کی سیاست کو تقویت دیتے ہوئے بی جے پی کے سیاسی عزائم کو پورا کرنے میں اس کی مدد کریں۔ بابری مسجد۔ رام مندر کے مسئلہ پر حالیہ چند مہینوںمیں ملک کی سیاست میں دوبارہ نفرت گھولنے کی منظم سازش اور مہم شروع ہوگئی ہے ۔ وقفہ وقفہ سے اس تعلق سے ایسے بیانات دئے جا رہے ہیںجن سے منافرت کے ماحول کو تقویت حاصل ہو رہی ہے اور اس سے سماج میں نفاق کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ اس نفاق اور منافرت کے ذریعہ ہی بی جے پی اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل اور آئندہ لوک سبھا انتخابات میںکامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی نے مندر ۔ مسجد مسئلہ کو ایک بار پھر انتخابی رنگ دینے کا منصوبہ بنالیا ہے کیونکہ اس کے پاس عوام سے دوبارہ رجوع ہونے اور پھر اپنے کام کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کا حوصلہ نہیں رہ گیا ہے ۔ گذشتہ ساڑھے چار سال کے عرصہ میں بی جے پی نے جو کام کئے ہیں ان سے ملک کی ترقی کی بجائے ملک کی بدخدمتی ہوئی ہے ۔ ملک بھر میں بے چینی اور بد امنی کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ ملک بھر میں کیفیت ایسی ہوگئی ہے جہاں نوجوان بیروزگاری سے تنگ آگئے ہیں۔ خواتین اپنی عزت اور عصمت کو بچانے کیلئے فکرمند ہوگئی ہیں۔ بچوں کے مستقبل کے تعلق سے کوئی واضح منصوبہ حکومت کے پاس نہیںہے ۔ مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت عملا ناکام ہوگئی ہے ۔ اس کے پاس کالا بازاری اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کا کوئی میکانزم نہیںہے ۔ اس کے پاس داخلی سطح پر عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ یا حکمت عملی نہیں ہے ۔ اس کے پاس بیرونی ممالک میں رکھا گیا کالا دھن واپس لانے کا کوئی پلان نہیںہے حالانکہ اسی وعدہ پر بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے مرکز میں اقتدار حاصل کیا تھا ۔ کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ بھی دیا گیا تھا لیکن خود بی جے پی حکومت پر بہت بھاری کرپشن کے الزامات عائد ہو رہے ہیں ۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر حکومت ٹیکس عائد کرتے ہوئے اپنے خزانے بھر رہی ہے ۔ ان اشیا کی قیمتوں میں کمی کے فوائد صارفین اور عوام تک نہیں پہونچائے جا رہے ہیں۔ پکوان گیس کی قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ ہر طرح کی ضروری استعمال کی اشیا عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوگئی ہیں۔ خواتین کی سکیوریٹی پرسوال اٹھنے لگے ہیں۔ سماج کا کوئی طبقہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے ۔ حالیہ عرصہ میں جو ضمنی انتخابات بی جے پی کے اثر والی ریاستوں میں ہوئے تھے ان میں بھی بی جے پی کو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ خود اس کے قائدین میں جو صحیح الفکر ہیں ناراضگی پیدا ہوتی جا رہی ہے اور ایک کے بعد ایک کچھ قائدین پارٹی سے دور ہوتے ہوئے پارٹی کی ترجیحات کا بھانڈا پھوڑنے لگے ہیں۔ ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کو ایک بار پھر مسجد ۔ مندر مسئلہ ہی میں پناہ ملتی نظر آرہی ہے ۔ وہ کارکردگی کی بنیاد پر یا پھر مودی کی شخصیت کے جادو کی بنیاد پر اقتدار دوبارہ حاصل نہیںکرسکتی ۔ یہ حقیقت بی جے پی قائدین پر بھی آشکار ہوچکی ہے اسی لئے ایک منظم سازش کے تحت بھگوا تنظیموں کے لگام کھول دئے گئے ہیں۔ انہیں پوری سہولیات دیتے ہوئے ملک میں منافرت کا ماحول پیدا کرنے کا ذمہ سونپا گیا ہے اور وہ سرگرم ہوگئی ہیں۔
گذشتہ دنوں شیوسینا کی جانب سے ایودھیا میںایک ڈرامہ رچا گیا ۔ لاکھوں افراد کو جمع کرنے کا دعوی کیا گیا تاکہ مندر کی تعمیر پر کوئی فیصلہ کیا جاسکے ۔ لاکھوں لوگ تو نہیں آئے لیکن آلہ کار میڈیا نے یہ کسر ملک بھر میں مندر مندر کا جاپ جپتے ہوئے پوری کردی اور فرقہ پرستی کو ہوا دینے میں اپنا پورا رول ادا کیا ۔ اس کے باوجود یہ ڈرامہ عوام کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہیںکرسکا ۔ اسی وجہ سے اب دہلی میں ایک بار پھر دھرم سنسد منعقد کرکے عوام میں مذہبی ہذیان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اب یہ دھڑلے سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ مندر مسئلہ پر سوائے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اس طرح عدالت میں جاری مقدمہ کی اہمیت سے اور خود عدالتی کارروائی کی اہمیت سے انکار کیا گیا ہے ۔ ملک کے عوام کو ایسی سازشوںکا شکار نہیں ہونا چاہئے اور نہ فرقہ پرستوں کے عزائم کی تکمیل کا موقع دیا جانا چاہئے ۔