بی جے پی ‘ عام آدمی پارٹی سے خوفزدہ

اب یہ سوچا ہے اپنی ذات میں رہیں گے محسن
بہت سوچ لیا لوگوں سے شناسائی کر کے
بی جے پی ‘ عام آدمی پارٹی سے خوفزدہ
دہلی اسمبلی انتخابات میں وہاں کے رائے دہندوں نے عام آدمی پارٹی کوووٹ دیتے ہوئے ایک طرح سے ملک کی سیاست کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اسمبلی انتخابات سے قبل ملک بھر میں نریندر مودی اور بی جے پی کی لہر چل رہی تھی ۔ ذرائع ابلاغ ہوں کہ سماجی فورمس ہوں یا خود عوام کے مختلف طبقات ہوں سبھی اس خیال سے متفق نظر آ رہے تھے کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ حاصل ہوگا اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوگی ۔بی جے پی کے حلقوں میں یہ تو یقین کی حد تک طئے تھا کہ نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا تقریبا طئے اور صرف چند ماہ ان کے اور وزارت عظمی کے درمیان حائل ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جس طرح سے مودی کی اور بی جے پی کی تشہیر کی جا رہی تھی وہ بھی سب پر عیاں ہے ۔ ہر گوشہ ایسا لگتا تھا کہ ایک ہی نقطہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے لیکن دہلی کے عوام نے جس سیاسی شعور اور سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اس نے نہ صرف دہلی کی بلکہ سارے ملک کی سیاست اور اس سے جڑی ہر شئے کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ پہلے تو کانگریس پارٹی کو ہی فکرتھی کہ اسے انتخابات میں کس طرح سے اپنی ساکھ کو متاثر ہونے سے بچایا جائے ۔ کانگریس کو تقریبا یقین تھا کہ اس کا اقتدار تو بچنے والا نہیں ہے لیکن اسے اپنی ساکھ بچانے کی فکر ضرور تھی ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ دہلی میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کی وجہ سے بی جے پی کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ اب اس کے اور دہلی کی گدی کے درمیان عام آدمی پارٹی رکاوٹ بن گئی ہے ۔ جس طرح سے ملک بھر میں عام آدمی پارٹی نے انتہائی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کی ہے اور جس طرح سے غیر نزاعی اور ایک پاک صاف امیج رکھنے والی شخصیتں اس پارٹی کے ساتھ ہوتی جا رہی ہیں اور عوام جس طرح سے اس کی جانبم توجہ ہو رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بی جے پی عملا عام آدمی پارٹی سے خوفزدہ ہوگئی ہے ۔ پرشانت بھوشن کے کشمیر سے متعلق ریمارکس کو بنیاد بناتے ہوئے جس طرح سے پارٹی کے دفتر پر حملہ کیا گیا اور اس سے قبل دہلی کی وزیر راکھی برلا کی کار پر جو سنگباری کی گئی یہ واقعات اس خیا ل کو پختہ کرنے کیلئے کافی ہیں کہ بی جے پی کی صفوں میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے ہلچل مچ گئی ہے اور وہ عام آدمی پارٹی ہی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔
پرشانت بھوشن نے کشمیر کے تعلق سے جو ریمارکس کئے تھے وہ ہوسکتا ہے کہ ان کی اپنی شخصی رائے ہو اور اگر وہ قابل گرفت ہو تب بھی بی جے پی کو یا اس کے کارکنوں اور سنگھ پریوار کے ہمدردوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پرشانت بھوشن نے کشمیر کے تعلق سے اپنے ریمارکس واپس لے لئے ہیں اور عام آدمی پارٹی نے بھی ان ریمارکس سے خود کو الگ کرلیا ہے ۔ ایسے میں بھوشن کے ریمارکس کو بنیاد بنا کر عام آدمی پارٹی کے دفتر پر حملہ کردینا کسی بھی طرح سے مناسب اقدام نہیں کہا جاسکتا ۔

جو تاثر دیا جارہا ہے کہ کشمیر ریمارکس کی وجہ سے ہندو طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہونچی ہے وہ بالکل نامناسب ہے ۔ کشمیر یا ہندوستان صرف ہندووں کا نہیں ہے ۔ یہ سارے ہندوستانیوں کا ہے جن میں ہندو ‘ مسلمان ‘ سکھ ‘ عیسائی اور سبھی شامل ہیں۔ ملک کی سالمیت صرف ہندووں کیلئے نہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کیلئے اہمیت کی حامل ہے اور ہر قوم و مذہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں نے اپنے ملک کے دفاع اور اس کی سالمیت کے تحفظ کیلئے جو قربانیاں دی ہیں وہ سارے ملک پر عیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی قانونی طور پر قابل گرفت بات ہو تو حکومت ہے اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں ہیں جو اس تعلق سے کارروائی کرسکتی ہیں۔ کسی کو بھی چاہے وہ خود برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان ہی کیوں نہ ہوں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور کسی کو نشانہ بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ بی جے پی کو بھی یہ ٹھیکہ کسی نے نہیں دیا ہے کہ وہ قومی اہمیت کے مسائل پر قانون ہاتھ میںلیتے ہوئے سیاسی حریفںو کو نشانہ بنائے اور ان کے دفاتر پر حملے کئے جائیں۔
عام آدمی پارٹی کے دفتر پر جو حملہ کیا گیا ہے اس کی وجہ چاہے بی جے پی کشمیر سے متعلق ریمارکس بتائے یا کچھ اور لیکن حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار کی صفوں میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے ہلچل مچی ہوئی ہے اور وہ عام آدمی پارٹی کو اپنے اقتدار کی راہ میں اصل رکاوٹ سمجھنے لگی ہے ۔ دہلی کے رائے دہندوں کے ووٹوں نے سارے ملک کے عوام کے سامنے جو مثال پیش کی ہے اور ان کی جو رہنمائی کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کا پریشان ہونا فطری بھی کہا جاسکتا ہے ۔

کسی سیاسی جماعت سے اختلاف یا اس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے نکلنے کی تگ و دو کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور وہ جمہوریت میں ایسی جدوجہد کرسکتی ہے لیکن اس کیلئے عوامی مسائل کو بنیاد بنایا جانا چاہئے ۔ اپنی مایوسی اور الجھنوں کا اس طرح سے اظہار کرنا اور مخالفین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرنا جمہوری عمل کا حصہ نہیں ہوسکتا ۔ علاوہ ازیں یہ قیاس بھی غلط نہیں ہوسکتا کہ بی جے پی یا اس کے ہمنوا اس طرح کی کارروائیاں چاہے جس انداز میں بھی کریں لیکن اس کا فائدہ بی جے پی کی بجائے خود عام آدمی پارٹی ہی کو ہونے والا ہے کیونکہ ملک کے عوام بھی اس طرح کی غنڈہ گردی والی حرکتوں کو بالکل پسند نہیں کرتے ۔