بی جے پی کے کٹر پسند امیدوار

جب تیز ہوائیں چلتی ہیں سبزہ تو وہیں جھک جاتا ہے
جو جھک نہیں پاتے پیڑ اکثر وہ جڑ سے اُکھڑ ہی جاتے ہیں
بی جے پی کے کٹر پسند امیدوار
ہندوتوا کا انتہا پسند چہرہ مدھیہ پردیش میں بھوپال لوک سبھا حلقہ کا امیدوار بنایا جاتا ہے، تو یہ زعفرانی اس کو بی جے پی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ سادھوی پرگیہ کو کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق چیف منسٹر ڈگ وجئے سنگھ کے خلاف کھڑا کیا جانا بڑا چیلنج نہ سہی ایک بڑی بے غیرتی کی بات کہلائے گی۔ ہندوتوا دہشت گردی کے لئے یہ نام اس سادھوی کا سہارا لینے کی کیوں بی جے پی کو ضرورت پیش آئی ہے تو آنے والے دنوں میں ہندوستان کی سیاست کا رخ کس کروٹ لینے والا ہے ، اس سے واضح اشارہ ملتا ہے۔ بی جے پی کو ہندوتوا کے ذریعہ ووٹ لینے میں ہی عافیت محسوس ہورہی ہے۔ بی جے پی کے مستقبل کی سیاست کی شاخ نازک پر سادھوی پرگیہ کو بٹھانے کی کوشش زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہوگی مگر کانگریس کو ناکام دیکھنے کی آرزو رکھنے والی بی جے پی کے لئے یہ خودکشی کے مترادف بات ہے کہ اس نے رسوائیوں اور بدنام زمانہ سادھوی کو سر آنکھوں پر بٹھاکر ملک کے رائے دہندوں کی توہین کی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر ڈگ وجئے سنگھ کو سادھوی پرگیہ کے سامنے اپنے وجود کو مضبوط بنانے کے لئے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں یہ لوک سبھا انتخابات کونسی تبدیلی لائیں گے یہ تو نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ بی جے پی میں زعفرانی چہروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ 2003ء میں بھی ڈگ وجئے سنگھ کو ہندوتوا لیڈر اوما بھارتی سے سامنا تھا۔ اوما بھارتی اپنی جوانی میں موٹر سائیکل سوار شعلہ بیان لیڈر سمجھی جاتی ہیں۔ اس خاتون نے سنگھ پریوار میں آئندہ نسل کی سخت گیر لیڈر کے طور پر نمائندگی کی۔ بی جے پی کی دُرگا واہنی میں مسلح ہتھیار چلانے میں نوجوانوں کو تربیت دینے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ سادھوی پرگیہ کو بھی بی جے پی کے خاص رائے دہندوں میں مقبولیت حاصل ہے۔ مدھیہ پردیش میں گزشتہ 15 سال سے بی جے پی کی حکمرانی تھی لیکن گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوئی اور وہاں کانگریس نے حکومت تشکیل دی ہے ۔ چند ماہ کے اندر ہی مدھیہ پردیش کے کانگریس حامی رائے دہندوں کو لوک سبھا کیلئے امیدوار منتخب کرنے پولنگ بوتھ تک جانا ہے۔ اگر مدھیہ پردیش کا رائے دہندہ اسمبلی انتخابات کی طرح لوک سبھا انتخابات میں بھی کانگریس کا ساتھ دیتا ہے تو پھر پرگیہ سادھوی کا سہارا لینا بی جے پی کے لئے کوئی کام نہیں آئے گا۔ مدھیہ پردیش کا شہر بھوپال یہاں کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے لیکن اس حلقہ سے مختلف ارکان پارلیمنٹ نے نمائندگی کی ہے ۔ روایتی طور پر یہ حلقہ کانگریس کا گڑھ مانا جاتا ہے، کانگریس ماضی میں کانگریس کو یہاں سے شکست بھی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے اس حلقہ میں اپنی گرفت مضبوط تو کرلی ہے، مگر ڈگ وجئے سنگھ کے سامنے وہ بھوپال میں قدم جماسکے گی، یہ کہنا مشکل ہے۔ سادھوی پرگیہ کو ڈگ وجئے سنگھ کے سامنے کھڑا کرنے والی بی جے پی نے یہ ضرور طئے کیا ہوگا کہ ناکامی ہوتی ہے تو بھی اس میں کامیابی بھی ہے کیونکہ کانگریس کے سینئر لیڈر کو چیلنج کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ 9 مرتبہ جیل کی ہوا کھانے والی پرگیہ سادھوی پر الزام ہے کہ اس نے مالیگاؤں بم دھماکے کے ذریعہ 6 افراد کو ہلاک کروایا تھا۔ سادھوی کو امیدوار بناکر بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم پر زعفرانی سایہ کو مزید مضبوط کرلیا ہے، لیکن یہ زعفرانی سایہ کب تک ساتھ دے سکے گا، یہ غیرواضح ہے۔ بے یقینی کی ایک مستقل کیفیت کے درمیان اگر سادھوی پرگیہ کو بی جے پی کی اوما بھارتی کے بعد دوسری کٹر پسند ہندوتوا لیڈر کا درجہ ملتا ہے تو پارٹی اپنی زعفرانی ٹیم کے ذریعہ ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ تجزیے اور پیشن گوئیاں ہوتی رہیں گی اور بی جے پی کو ہندوتوا کا سہارا لینے کا فائدہ ہوگا یا نقصان یہ نتائج پر منحصر ہے۔ ووٹ دینے کا اختیار اور حق رکھنے والے عوام کو ہی اپنے شعوری پن کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مگر عوام اپنے حق اور ذمہ داری کا استعمال کرنے سے تغافل کرتے ہیں تو پھر ملک کی سمت بگاڑنے والی طاقتوں کو قوت حاصل ہوجائے گی۔