بی جے پی کے وعدے اور گمراہ کن تاویل

مستانہ وار کوئی بہاروں کے ساتھ تھا
بہکے قدم جو میرے تو لغزش سنبھل گئی
بی جے پی کے وعدے اور گمراہ کن تاویل
مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی بجائے ان کی غلط تاویل پیش کرتے ہوئے اور ملک و ملک کے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے محض زبانی جمع خرچ اور تشہیر کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے قبل اس نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ بیرونی ممالک میں رکھے گئے کروڑہا روپئے کے کالے دھن کو وطن واپس لایا جائیگا اور پھر لاکھوں روپئے ہر ہندوستانی شہری کے بینک اکاؤنٹ میں ڈالے جائیں گے ۔ ملک کے عوام نے اس وعدہ پر یقین کرنے کی کوشش کی تو انتخابات اور پھر کامیابی کے بعد اقتدار کے نشہ سے چور بی جے پی صدر امیت شاہ نے یہ دعوی کردیا کہ یہ تو محض انتخابی جملہ تھا اور اس پر یقین نہیں کیا جانا چاہئے تھا ۔ اس طرح عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا ۔ پھر بی جے پی سے جب یہ سوال کیا جانے لگا تھا کہ اس نے اچھے دن لانے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا تب پارٹی کے ایک مرکزی وزیر نے یہ دعوی بھی کردیا تھا کہ بی جے پی نے کبھی بھی اچھے دن لانے کا وعدہ نہیں کیا تھا ۔ جب اس پر تنقیدیں ہونے لگیں تو خاموشی اختیار کرلی گئی اور اب بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ مرکزی حکومت نے اچھے دن لا دئے گئے ہیں۔ ملک کے عوام کو اچھے دنوں کا احساس ہونے لگا ہے ۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ اچھے دن کہاں سے آئے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جنہیں اچھے دن کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ ملک کے کروڑ ہا نوجوان پہلے دو وعدوں کی عدم تکمیل کے بعد اب روزگار فراہمی کے وعدہ کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ اس صورتحال میں امیت شاہ پھر میدان میں کود پڑے اور انہوں نے عملا اس وعدہ سے بھی انحراف کرلیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت 125 کروڑ عوام کو سرکاری ملازمتیں فراہم نہیں کرسکتی اس لئے جو لوگ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرلیتے ہیں ‘ کوئی چھوٹی صنعتیں قائم کرلیتا ہے یا کوئی اسٹارٹ اپ پر توجہ دیتا ہے تو اس کو بھی سرکاری کھاتے میں شمار کیا جانا چاہئے ۔ یہ کچھ اور نہیں بلکہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے بی جے پی کے وعدے سے انحراف ہے ۔ بی جے پی کو شائد اقتدار حاصل ہونے کے تین سال بعد یہ احساس ہوا ہے کہ وہ کروڑوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔
امیت شاہ ان دنوں گجرات کے چکر لگا رہے ہیں۔ گجرات میں آئندہ سال کے اوائل ہی میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ سال کچھ اور ریاستوں مںے بھی انتخابات ہونگے اور پھر لوک سبھا انتخابات کیلئے بھی زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے ایسے میں بی جے پی اور اس کی قیادت چاہتی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے سابقہ وعدوں کی بات نکال دی جائے اور پھر انہیں نئے طریقے سے گمراہ کیا جائے ۔ انہیں ایک بار پھر ہتھیلی میںجنت دکھائی جائے اور سبز باغ دکھاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں۔ اسے پھر پانچ سال کی مہلت حاصل ہوجائیگی اور پھر نئے وعدوں کے تعلق سے کوئی نئی تاویل پیش کردی جائیگی ۔ کوئی اور ہتھکنڈہ پیش کرتے ہوئے عوام کو دوسرے اور غیر اہم ایسے مسائل میں الجھا دیا جائے جن سے عوام یا ملک کی ترقی کا کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ کروڑ ہا نوجوان ملک بھر میںایسے ہیں جنہیں روزگار کے اہم ترین مسئلہ سے بھٹکار کر دوسرے ایسے مسائل میں الجھاد یا گیا ہے جو اس ملک کو ترقی دینے کی بجائے اس کو مزید پسماندگی کا شکار بناسکتے ہیں۔ انہیں گئو رکھشا کے نام پر مصروف کردیا گیا ہے ۔ انہیں فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے ۔ انہیں سوشیل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کا حصہ بنایا جا رہا ہے ۔ انہیں ملک کے غدار اور حب وطن کی بحث میں حصہ دار بنادیا گیا ہے ۔ انہیں پھر سے رام مندر مسئلہ سے بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تین طلاق اور یکساں سیول کوڈ مسئلہ پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے روزگار کے متلاشی نوجوانوں کی توجہ کو بھٹکانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔
جب انتخابات میں اپوزیشن یا پھر خود رائے دہندوں کی جانب سے روزگار کے مسئلہ پر اور اچھے دن کے مسئلہ پر سوال پوچھے جانے کے امکانات نظر آنے لگے تو ان مسائل سے ہی بری الذمہ ہونے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ امیت شاہ نے یہ تو کہدیا کہ ملک میںاچھے دن آگئے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ اچھے آخر کس کے آئے ہیں۔ روزگار کے مسئلہ پر کہدیا گیا کہ سرکاری ملازمتیں سب کو نہیں دی جاسکتیں ایسے میں جو لوگ اپنے طور پر بھی کوئی گذر بسر کا راستہ تلاش کرلیں گے تو اسے بھی حکومت کے کھاتہ میں شمار کیا جائے ۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ روزگار اگر فراہم نہیں جاسکا تو کتنے لاکھ نوجوانوں کو اپنے ذاتی کاروبار کیلئے کوئی مدد فراہم کی گئی ؟ ۔ حکومت نے کاروبار کو مدد فراہم کرنا تو دور کی بات ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے کاروبار کو متاثر ضرور کیا ہے ۔ ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اپنے وعدوں کی غلط تاویل کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے ۔