بی جے پی کے لئے خسارہ کی فضا

چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاوں شاخ آشیانہ
بی جے پی کے لئے خسارہ کی فضا
ہندوستان میں ترقی و خوشحالی کے ساتھ مستحکم ملک فراہم کرنے نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی دی گئی ضمانت اب مضحکہ خیز معلوم ہونے لگی ہے۔ بی جے پی کے اندر انتشار کی کیفیت نے ایک سال کے اندر ہی قومی سطح پر مودی حکومت کی اقتدار کی بد ترین خامیوں کو آشکار کردیا ہے۔ مہاراشٹرا کے شہر ممبئی میں کلیا دیوی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی راج پروہت نے وزیر اعظم مودی کے خلاف جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کو مودی حکومت کی صحت کیلئے مناسب نہیں سمجھا جارہا ہے خاص کر بی جے پی کے چار خاتون وزراء کے تنازعات میں محصور مودی حکومت کو آنے و الے دنوں میں اپنی کارکردگی کا حساب کتاب پیش کرنا پڑے تو عوام کو صرف دھوکہ ہی ملے گا ۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک اجتماعی قیادت کے ساتھ حکومت کریں گے مگر انہوں نے اپنے قول کو پورا نہیں کیا جس کے نتیجہ میں پارٹی قائدین نے ان پر انگشت نمائی شروع کردی ۔ بی جے پی نے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کالا دھن بیرونی حلقوں میں پوشیدہ ہے انہوں نے ہی لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی حکومت کو اقتدار پر لانے کیلئے دولت خرچ کی ہے ۔ یہ کالا دھن رکھنے والے ہی آج بی جے پی کے سب سے بڑے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں سیاسی اور سرکاری سرپرستی کی سخت ضرورت تھی ۔ اب یہ لوگ مودی حکومت کی نگرانی میں اپنے کالے دھن کو محفوظ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس ملک کی نصف حکمرانی اس کالے دھن سے چلائی جارہی ہے ۔ وزیر اعظم مودی کی خوش کن تقاریر کا اختتام ناخوشگوار واقعات پر ہورہا ہے یعنی سشما سوراج‘ وسندھرا راجے ‘سمرتی ایرانی اور پنکج منڈے نے بی جے پی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ مودی نے بیٹی بچاومہم شروع کی تھی لیکن اس بیٹی کے نام پر مہاراشٹرا کی خاتون وزیر پنکج منڈے نے206 کروڑ روپئے کا اسکام کیا۔ کرناٹک کے 5 بی جے پی ارکان اسمبلی پر عصمت ریزی کا الزام ہے اور یہ ہنوز پارٹی میں سرگرم ہیں تو کیا وزیر اعظم کا بیٹی بچاو نعرہ اس طرز حکمرانی پر ختم ہوگا ۔ بی جے پی حکومت میں ایک طرف خاتون وزراء کی بد عنوانیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں تو دوسری طرف بیٹی بچاو مہم کا بھونڈا پروگرام خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات کی نذر ہوچکا ہے ۔ مودی نے گنگا کی صفائی کا وعدہ کیاتھا وارانسی میں اپنے پروگراموں میں شرکت کومنسوخ کر کے وعدوں کو پورا نہیں کیا اور گنگا کی صفائی ہنوز ایک معمہ ہی بنی رہی ہے ۔ بی جے پی کو ووٹ دینے والے اس کی حکومت کی کارکردگی کا بھی نوٹ لے رہے ہیں ۔ سوٹ بوٹ کی اس سرکار کے بارے میں رائے عامہ سے یہی نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ مودی حکومت کو ایک سال کے اندر ہی اپنی خامیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس پارٹی نے رائے دہندوں کے نظروں میں اپنا اعتبار کس حد تک کھویا ہے آنے والے انتخابات میں اندازہ ہوجائے گا ۔ بلا شبہ برسوں کے ابتر سیاسی نظام کو راتوں رات بہتر تو نہیں بنایا جاسکتا مگر مودی نے اقتدار پر آنے سے قبل اور حلف لینے کے دوران جو وعدے کئے تھے ان پر عمل آوری نہیں کی جارہی ہے تو اس کو ایک ناکام حکومت ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ عوام کو خواب دکھانے و الی بی جے پی کو ٹھوس پالیسیوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بعض اہم مسائل پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی سے مزید کئی مسائل پیدا ہوں گے اگر ان کی خاموشی یوں ہی برقرار رہی تو آنے والے چند دنوں میں انہیں ووٹ دینے والے لوگ ہی ان سے استعفی طلب کریں گے ۔ بی جے پی نے حکمرانی کے کاموں میں پارٹی کے داخلی امور کو شامل کر کے اپنی کارکردگی پر انگلیاں اٹھانے کا موقع دیا ہے ۔جس وزیر اعظم نے نعرہ لگایا تھا کہ اب کی بار نو بھرشٹرا چار یا دیش میں نئی کرانتی ‘ کوئی حیلہ بہانہ نہیں ہوگا تو اب حکومت کے اہم کارکنوں کو رشوت ستانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو سچائی کہاں ہے ۔ انسداد رشوت ستانی کی مہم کے بجائے رشوت کو بڑھا وا دینے اور دھوکہ سے کابینی ذمہ داریاں انجام دینے والی خاتون وزراء نے اپنی پارٹی کیلئے بھاری نقصان سے دوچار حالات پیدا کردیئے ہیں ۔ اب وزیر اعظم کے پاس ایک ہی اختیار کھلا ہے کہ وہ ان چار خاتون وزراء کا استعفی طلب کرلیں یا خود مستعفی ہوجائیں ۔ ایسا اس وقت ہی ممکن ہے جب وزیر اعظم کی حیثیت سے مودی ضمیر کی آواز کا جائزہ لیں گے ۔مئی 2014 میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کا نتیجہ ایک سال کے اندر ہی بد عنوانیوں ‘بدنامیوں اور خرابیوں کی شکل میں سامنے آئے تو پھر حکمرانی کی صلاحیتوں میں کمی و خامی کا اعتراف کرتے ہوئے حکمرانی کے فرائض کی انجام دہی کی ذمہ داری دوسروں کے تفویض کرنے پر غور کرنا ضروری ہے ۔