بی جے پی کوشکست دینے کے لئے سکیولر طاقتوں کو متحد ہونا پڑیگا۔ کیرالا چیف منسٹر پینارائی وجین۔

بائیں بازو کے کسی ریاست کے اکلوتے کیرالا چیف منسٹر پینارائی وجین نے کانگریس کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت سے صاف انکار کردیا ہے۔

سخت انداز اختیار کرنے اور کام کاج کے طریقہ پر ان کے مخالفین انہیں ’منی مودی ‘کہتے ہیں ۔ کیرالا کے  74سالہ چیف منسٹر پینارائی وجین نے کہتے ہیں وہ ریاست کو پسندیدہ سرمایہ کاری کے نئی منزل کے طور پر تیار کریں گے۔

جائزہ لینے کے دوسال کی تکمیل کے ساتھ ہی ان کے پارٹی نے چینگنور ضمنی الیکشن میں بھاری کامیابی حاصل کی ہے۔

پارٹی کے اندر او ر باہر مضبوط موقف کے حامل کے اب بھی سخت مخالف کانگریس نظریات۔ایچ ٹی کے رپورٹر رامیش بابو سے بات کرتے ہوئے بائیں بازو کے واحد چیف منسٹر نے جہاں اپوزیشن کے اتحادپر زوردیا وہیں کانگریس سے اتحادکو سخت سے مستردکردیا۔ پیش ہیں کچھ اقتباسات

آپ نے کہاکہ ضمنی انتخابات کے نتائج آپ کی حکومت کی کامیابی ہے۔
جی ہاں عوام نے ہماری پالیسیوں کو دل کی گہرائیوں سے قبول کیا ہے یہ دیکھا تا ہے۔ حالانکہ چینگننور ہماری ہی سیٹ تھی وہاں پر بائیں بازو کا کبھی مضبوط موقف نہیں رہا۔

میڈیا کے ایک حصہ کو لے کر اپوزیشن نے بڑے پیمانے پر وہاں مہم چلائی۔ مگر آخر ان کے تمام دعوی ڈھیر ہوگئے۔

عوام ہمارے ساتھ کھڑی رہی۔ یہ سکیولر او رڈیموکرٹیک فورسس کی جیت ہے۔

ہماری امیدوار ساجی سورین کی بڑی مارجن (بیس ہزار کی ریکارڈ ووٹس)زیر دوران تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ بائیں بازو کی بنیادیں وسیع ہورہی ہیں۔

میں عوام کے اس بھروسہ کا دل سے احترام کرتاہوں او رساتھ اس کے بعد ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔

قومی سطح پر ایک مخالف بی جے پی فرنٹ سرگرم عمل ہے۔ پڑوسی ریاست میں کرناٹک میں یہ واضح تھا۔ یہ موثر ثابت ہوگا؟۔
جی ہاں یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بی جے پی حکومت کی مخالف عوا م پالیسیاں پر ایک مضبوط اپوزیشن کی تشکیل ضروری ہے۔

مذکورہ این ڈی اے تمام محاضوں پرناکام ہوگئی ہے۔ زراعی بحران‘ بے روزگاری اور بڑھتی قیمتیں۔ نوٹ بندی اور جے ایس ٹی نے عام لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔

موجودہ حکومت سے تمام لوگ مایوس ہیں۔ان کا جلد ہی جانا بہتر ہوگا۔مگر ہم ہڑا ہوڑی کے انتظامات پر یقین نہیں رکھتے۔

ہمارا احساس ہے ایک اپوزیشن کی حیثیت سے اثر انداز ہونے کے لئے متبادل پالیسیوں کی بنیاد پر تعین کیاجاسکتا ہے۔

معمولی طور پر چہرے کے تبدیلی کافی نہیں ہے۔ ہمیں عدم اطمینان کی جڑ کی تلاش اور اس کے علاج پر توجہہ مرکوز کرنے کی ہے۔

سکیولر او رڈیموکرٹیک فورسس کو ایک پلیٹ فارم پر لاتے ہوئے بی جے پی کو شکست دینا اہم مقصد ہے۔ مگر یہ کانگریس سے عدم اتحاد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔مگر ایوان پارلیمنٹ میں کانگریس کے بشمول تمام اپوزیشن پارٹیوں کی سمجھوتے سے متفقہ مسائل پر ہی ہوسکتا ہے۔

قومی سطح پریہ کام اگر ہوجائے تو کیرالا میں کیا منظر ہوگا؟
ہمارا موقف او رپالیسی ایک ہی ہے۔ پارٹی کانگریس نے بارہا یہ بات صاف کردی ہے۔ ہمیں کانگریس سے کسی قسم کا کوئی اتحاد نہیں چاہئے۔

اس میں مزید میں کچھ کہنا نہیں چاہوں گا۔

بھاری اکثریت سے جیت کے باوجود ‘ آپ کی حکومت پر کئی الزامات ہیں۔پولیس کی اجارہ داری‘ زراعت اور متواتر سیاسی قتل۔
اس میں حقائق سے زیادہ من گھڑت باتیں زیادہ ہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا کا ایک حصہ الگ الگ واقعات کو جوڑ کر کڑی بنادیا ہے۔

ریاست میں پولیس بڑے پیمانے پر بہتر کام کررہی ہے۔ کئی پیچیدہ واقعات کوسلجھاتے ہوئے پولیس نے یہ تاثر دیا ہے کہ کوئی بھی بنا ء سزا نہیں چھوڑا جائے گا۔

مگر ایسا نہیں کہاجاسکتا کہ وہ بیوقوف ہیں ‘ ایک حکومت پولیس کے کام میں مداخلت نہیں دے سکتی۔یکا دکا واقعہ ہے مگر حکومت نے اس قسم کے عہدیداروں کے خلاف کاروائی کی ہے۔

ہم پولیس فورس میں اصلاحات پر کام کررہے ہیں تاکہ انہیں مزیدمتحرک بناسکیں۔

ہم نے فورس میں کافی تعداد میں خواتین کو نمائندگی دی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی اگر بات کریں تو کیرالا سب سے بہتر ریکارڈ کا حامل پایاجائے گا۔

قومی تناسب کے مقابلے سزا دینے کا ہمارا تناسب بہتر ہے۔جرائم کے ریکارڈ‘ سیاسی قتل‘ تصادم او رفرقہ وارنہ نوعیت کے واقعات کو اگر لیں تو سب کچھ کم ہوگئے ہیں۔

آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکرجھی کے دورے پر تنقیدکے دوران آپ نے کانگریس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
ڈیموکریسی اور سکیولرزم پر ایقان رکھنے والوں کے لئے یہ ایک گہرا صدمہ تھا۔

اس سے بھی زیادہ صدمہ کی بات یہ تھی کہ وہ وہاں پر ڈیموکریسی اور دیگر اقدار پر بات کرنے نہیں گئے تھے‘ وہ وہاں پر تین سال کی تربیت مکمل کرنے والے آر ایس ایس ورکرس کے ایک کیمپ کا افتتاح کرنے گئے تھے۔

مہمانوں کی کتاب میں ان انٹری اتنی ہی قابل مذمت ہے۔

جیسا کے ان کی بیٹی نے کہہ دیا تھا کہ آر ایس ایس ان کی اس دورے کو ان کی قبولیت اور ہمدردی کے لئے استعمال کریگی ۔ انہیں مستر د کردینا تھا

بی جے پی کے قومی قائدین کہہ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کیرالا میں اپنی بنیادیں مضبوط کررہی ہے؟۔
احمقوں کی جنت میں انہیں رہنے دو۔ میں تاریخ میں نہیں جانا چاہوں گا۔

چینگننور کے ضمنی الیکشن میں ان کا امیدوار نے پہلے کے مقابلے 7500ووٹ کم لئے ہیں۔ آپ خود انداز لگائیں کہ ان کی اثر بڑھا ہے یا گھٹا ہے۔

حقیقت یہ ہے کیرالا جیسے سکیولر ریاست میں ان کی تقسیم والی پالیسی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں کیرالا ایک مثال بن جائے گا۔

حال ہی میں نیپا کا واقعہ ریاست میں خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔کچھ اموات کے باوجود ‘ یہ فوری طور پر صدمہ سے باہر آیا اور کسی بھی طرح حالات پر قابو پالیا؟
سچ ہے کچھ اموات پیش ائے۔یہ نہایت مشکل تھا ہم نے دوسرے انفیکشن کی جانچ کے لئے جنگی خطوط پر کام کیا۔دیکھا کہ کوششیں غیرمعمولی ہیں۔

قبل ازوقت اس قسم کے کمیاب وائیرس کی شناخت کے ہم وہاں اہل ہوگئے۔

ہمارے ڈاکٹرس ‘ نرس‘ اسپتال ورکرس‘ او رصحت عامہ کے عہدیداروں نے قابل اطمینان کام کیا۔منتخب نمائندے ‘ اپوزیشن لیڈراور عہدیدار ایک ہوگئے تھے۔ہم اپنی حساسیت کو کم نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نے اس مشکل کا کس طرح مقابلہ کیا ہے وہ دیگر ریاستوں کے لئے ایک سبق بن گیا ہے۔

قومی او ربین الاقوامی ادارے ہماری کوششوں کی ستائش کررہے ہیں۔ہم ہمارے صحت کے شعبہ کو مزید مستحکم بنانے کے لئے طویل مدتی پالیسیوں کے متعلق لائحہ عمل تیار کررہے ہیں۔