بی جے پی قائدین کو رشوت

تعصب کا تعفن بھر گیا آلودہ ذہنوں میں
پرانے کاغذوں میں خود بخود جیسے دیمک آئے
بی جے پی قائدین کو رشوت
ملک میں انتخابی عمل کا آغاز ہوتے ہی بی جے پی قائدین کی رشوتوں کا پٹارہ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ سابق چیف منسٹر بی ایس ایڈورپا کے ڈائری کے اوراق نے بی جے پی قائدین کی رشوتوں کو کھول کر سارے ملک کے سامنے لادیا ہے ۔ ان اوراق میں بی جے پی کے تقریبا تمام ہی اعلی اور بڑے قائدین کے نام سامنے آگئے ہیں اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ کس لیڈر کو کتنی رقم اداکی گئی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ سینئر ترین قائدین جیسے ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی تک کو ایڈورپا کی جانب سے رقمی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ یہ وہی قائدین ہیںجنہیں اب بی جے پی میں پوری طرح حاشیہ پرکردیا گیا ہے ۔ بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی کو ابھار کر آگے بڑھانے والے ایل کے اڈوانی گاندھی نگرحلقہ لوک سبھا سے پارٹی ٹکٹ سے تک محروم کردئے گئے ہیںاور مرلی منوہر جوشی کو پہلے ہی مارگ درشک منڈل کا رکن بنادیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ آج مودی اورا میت شاہ کی جئے جئے کار کرنے میں ہر ایک کو پیچھے چھوڑنے والے ارون جیٹلی ‘ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور نریندر مودی کا متبادل سمجھے جانے والے نتن گڈکری کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن کے تعلق سے ادعا کیا گیا ہے کہ ایڈورپا نے انہیں بھی سینکڑوں کروڑ روپئے رشوتیں دی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نتن گڈکری کے فرزند کی شادی میں ایڈورپا نے 100 کروڑ روپئے کی رقم ادا کی تھی ۔ ظاہر سی بات یہ ہے کہ ہزاروں کروڑ روپئے کسی جائز کمائی کے تو نہیں تھے ۔ یہ خالص رشوت اور کالے کرتوتوں کی کمائی تھی جس میں مرکزی قائدین کو بھی حصہ داری ادا کی گئی تھی ۔ یہ انکشافات عام نوعیت کے نہیں کہے جاسکتے اور ان کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کی تحقیقات کروائے جانے کی ضـرورت ہے ۔ اب جبکہ ملک میں ابھی ابھی پہلے لوک پال کا تقرر کیا گیا تو یہ تحقیقات لوک پال کے ذریعہ ہی ہونی چاہئے ۔ دوسری ایجنسیوں کے ذریعہ بھی تحقیقات ہوسکتی ہیں لیکن یہ تاثر عام ہے کہ تقریبا ہر ایجنسی اور ادارہ مرکزی حکومت کے اشاروں پر کام کر رہا ہے ۔ ایسے میں لوک پال کے ذریعہ تحقیقات کرواتے ہوئے سارے حقائق کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔
سارا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی کے قائدین کس طرح سے دوسری جماعتوں کے قائدین اور خاص طور پر کانگریس اور اس کے قائدین کو رشوتوں کی وجہ سے نشانہ بناتے رہے ہیں۔ حقیقت میں بھی جو رشوت خور ہوتے ہیں انہیں نشانہ بنایا جانا چاہئے لیکن اب جبکہ بی جے پی کے اعلی قائدین اور سرکردہ لیڈرس کا نام رشوتوں میں سامنے آیا ہے تو اسے سیاسی الزام تراشی کا بہانہ کرتے ہوئے پیچھے نہیںچھوڑنا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایڈورپا پر رشوت کے الزامات اس وقت عائد ہوئے تھے جب وہ کرناٹک کے چیف منسٹر تھے ۔ اسی وجہ سے انہیں وزارت اعلی سے ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔ اسی وجہ سے وہ بی جے پی سے علیحدہ ہوگئے تھے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی علیحدہ پارٹی قائم کرلی تھی ۔تاہم وہ اچانک ہی بعد میں بی جے پی میں دوبارہ شامل کرلئے گئے ۔ اس سارے معاملہ کے پس پردہ وہی سینکڑوں کروڑ روپئے کی رقم ہوسکتی ہے جس کے تعلق سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ بی جے پی کے اعلی قائدین کو بطور حصہ داری پیش کی گئی ہے ۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایڈورپا نے کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے قائدین کو خریدنے کی کوشش کی تھی جس کا خود ارکان اسمبلی نے انکشاف کیا تھا ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی وہی رقم ہو جو رشوتوں سے حاصل کی گئی ہو اور اس کے ذریعہ اقتدار ہتھیانے کی کوشش ایڈورپا کی جانب سے کی گئی تھی ۔
جو ڈائری کے اوراق سامنے آئے ہیں ان کو محض کاغذ کے ٹکڑے قرار دے کر مسترد کرنا ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کا طریقہ کار ہو لیکن الزامات کی نوعیت اور جن قائدین کو رشوتوں کا دعوی کیا جا رہا ہے ان کے اہمیت کے حامل عہدوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سارے معاملہ کی انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے۔ اس سارے معاملہ میں ایڈورپا سے پوچھ تاچھ ہونی چاہئے ۔ جن قائدین اور مرکزی وزرا کے نام ان اوراق پر پائے گئے ہیں ان سے پوچھ تاچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سارے معاملہ کو بے نقاب کیا جاسکے ۔ انتخابات سے قبل کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ ایک اچھا ہتھیار آیا ہے جس کے ذریعہ وہ حکومت پر جامع و غیر جانبدار تحقیقات کیلئے حکومت پر دباؤ بناسکتے ہیں۔