بی جے پی حکومتوں کی ترجیحات

کھلتا کسی پہ کیوں نہ مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
بی جے پی حکومتوں کی ترجیحات
ملک میں قومی سطح پر اور ریاستوں میں قائم ہونے والی حکومتوں کی ذمہ داری اور فریضہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کریں اور ملک و ریاست کی ترقی کیلئے پالیسیاں بناتے ہوئے کام کیا جائے ۔ نوجوانوں کو روزگار دیا جائے ۔ معیشت کو مستحکم کیا جائے۔ کسانوں کی مدد کی جائے ۔ خواتین کا تحفظ کیا جائے ۔ داخلی سطح پر جو مسائل ہیں ان کو دور کرتے ہوئے سماج میں اتفاق و اتحادکی فضا پیدا کی جائے ۔ تاہم جہاں تک ملک میںقائم بی جے پی کی حکومتوں کا سوال ہے ان حکومتوں نے واضح طور پر یہ پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملک کے سارے عوام کے یا ریاست کے سارے رائے دہندوں کیلئے کام کرنے کا فریضہ ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرینگے اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہی انہوں نے اقتدار حاصل کیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بی جے پی کی ریاستی حکومتوںنے عوام کی فلاح و بہبود پر کام کرنے کی بجائے ایسی پالیسی اختیار کی ہے جس کے نتیجہ میں عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹ جائے اور نراج و نفاق کی فضا کو تقویت حاصل ہوجائے ۔ چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ اس معاملہ میں آگے ہیں۔ وہ گجرات کے بعد اترپردیش جیسی ریاست کو سنگھ پریوار کی نام تبدیل کرنے اور ہندوتوا کو رائج کرنے کی لیباریٹری میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو مغل سرائے اسٹیشن کے نام کو تبدیل کردیا تھا ۔ اب الہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج کردیا اور پھر فیض آباد ضلع کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے سری ایودھیا کردیا گیا ۔ ان ناموںکی تبدیلی سے نہ عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی تعلق ہے اور نہ پارٹی کے انتخابی وعدوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ ناموں کی تبدیلی سے نہ تو ریاست کی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا اور نہ ہی بیروزگار نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے ۔ اس سے صرف سماج میں نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے شائد بی جے پی چاہتی بھی یہی ہے ۔ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل اسی طرح کے ماحول کو ہوا دیتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے تاکہ انتخابات میں لوگ مسائل پر توجہ دینے نہ پائیں۔
آدتیہ ناتھ کی حکومت کے پاس مزید شہروں کے مسلم ناموں کو تبدیل کرنے کی تجویز بھی ہے اور اس بات سے کوئی بعید نہیں ہے کہ لگ بھگ سارے ہی مسلم نام بدل دئے جائیں۔ یو پی کے بعد گجرات بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہے اور اب احمد آباد کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے ۔ حیرت اور افسوس اس بات کا ہے کہ ریاستی سطح پر اس طرح کے اقدامات دھڑلے سے کئے جا رہے ہیں اور بی جے پی کی مرکزی قیادت ہو یا خود وزیراعظم ہوں اس پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے یا ایسی کوششوں کو روکنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آرہے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ عوام کی خواہشات کے پیش نظر ایسا کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے عوام کی اکثریت اس طرح کے مسائل میںالجھنا نہیںچاہتی ۔ ان کے سامنے معیشت کا مسئلہ ہے ۔ ان کے سامنے مہنگائی کا مسئلہ ہے ۔ ان کے سامنے صحت کا مسئلہ ہے ۔ ان کے سامنے بچوںکی تعلیم کا مسئلہ ہے ۔ ان کے سامنے نوجوانوںکے روزگار کا مسئلہ ہے ۔ ملک کے عوام چاہتے ہیںکہ ہر بے گھر کو رہنے کیلئے مکان مل جائے ۔ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے دو وقت کی روٹی مل جائے اور تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا مل جائے ۔ بیماروں کو علاج کی سہولت مل جائے تاہم بی جے پی یا اس کی حکومتوں کے پاس ایسے کوئی مسائل کا حل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ترجیحات میں یہ مسائل شامل ہیں۔
ملک کے سنجیدہ فکر کے حامل عوام اور رائے دہندوں کو چاہئے کہ وہ بی جے پی کی ان ترجیحات کو سمجھیںاور مسائل پر توجہ سے بھٹکنے سے گریز کریں۔ وقتی جذبات کو فروغ دیتے ہوئے مذہبی استحصال کی کوششوں سے وہ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بچانے کا بھی فریضہ ادا کریں۔ انہیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کا استحکام کن اقدامات سے ہوسکتا ہے ۔ ملک کی معیشت میں سدھار اور بہتری کس طرح کی پالیسیوں سے ممکن ہوسکتی ہے ۔ تعلیم کے میدان میں قوم کس طرح ترقی کرسکتی ہے ۔ بیروزگاری کا خاتمہ کس طرح سے ممکن ہوسکتا ہے ۔ ان امور پر ملک کے عوام کو غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بی جے پی مسائل سے توجہ ہٹا کر مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہونے پائے ۔