بی جے پی ایجنڈہ

زمانہ چونک پڑا آستیں میں خنجر تھا
یہ کس نقاب میں ہم سب کا راہبر آیا
بی جے پی ایجنڈہ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ پر دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ وہ 17 ستمبر کو یوم آزادی تلنگانہ کو سرکاری طور پر منائیں ۔ بی جے پی نے اپنے وجود کے احساس کو مضبوط بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے تلنگانہ میں ’ یوم نجات ‘ کے عنوان سے نظام آباد میں جلسہ عام بھی منعقد کیا لیکن اس کی یہ کوشش بھی سرد پڑ گئی اگرچیکہ جلسہ عام میں شرکت کے لیے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی دہلی سے تشریف لائے تھے ۔ شمالی تلنگانہ میں بی جے پی کو مضبوط بنانے کے مقصد سے بی جے پی کے ریاستی قائدین نے خود کو بے حد مصروف رکھا ہے ۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست تلنگانہ کے سیکولر عوام نے فرقہ پرستوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب ہونے کا موقع ہی نہیں دیا ہے ۔ 17 ستمبر کو ہر سال اپنے فرقہ وارانہ نظریہ کو تلنگانہ عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کرنے والی ریاستی بی جے پی قیادت آئندہ بھی اس طرح کی کوششوں کے ذریعہ ایک پرامن ماحول کو بگاڑنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی اب کسی علاقہ کی جماعت نہیں رہی بلکہ وہ قومی سطح پر حکمراں پارٹی بن گئی ہے ۔ اسے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی کارکردگی کا صاف ستھرا ریکارڈ دکھانا ضروری ہے تاکہ وہ ایک سیکولر ہند کی کامیاب سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاسکے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے رائے دہندوں کی اکثریت کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی کو اپنے دستوری فرائض سے راہ فرار اختیار کرتے دیکھا جارہا ہے ۔ علاقائی سطح پر پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں ۔ جنوبی ہند میں بی جے پی کے وجود کو قوی بنانے کی فکر رکھنے والی علاقائی پارٹی قیادت کو کم از کم تلنگانہ میں کامیابی نہیں ملے گی کیوں کہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے سیکولر ووٹوں کو مضبوط بنا رکھا ہے ۔ تلنگانہ کے عوام اس پارٹی پر کامل ایقان رکھتے ہیں ۔ اب ٹی آر ایس نے 17 ستمبر کو یوم آزادی تلنگانہ یا سابق ریاست نظام دکن کے انڈین یونین میں انضمام کے دن کو سرکاری طور پر منانے کے مطالبہ کو مسترد کر کے اپنے سیکولر امیج کو مزید قوی بنالیا ہے ۔ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے سخت موقف کو دیکھ کر ہی بی جے پی ریاستی یونٹ کے قائدین نے شمالی تلنگانہ کے نظام آباد ٹاون میں اپنا جلسہ عام منعقد کیا اور اس کے لیے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا لیکن اس ساری دوڑ دھوپ کے باوجود بی جے پی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ نظام آباد کو بی جے پی کے لیے خوش بخت علاقہ متصور کرنے والے قائدین اس فراق میں ہیں کہ وہ نظام آباد میں شمالی تلنگانہ کے رائے دہندوں کو بی جے پی کی صف میں لانے میں کامیاب ہوں گے ۔ راجناتھ سنگھ نے نظام آباد کے جلسہ عام میں جو تقریر کی اس سے بھی واضح ہوا کہ بی جے پی کی قومی قیادت کو تلنگانہ سے زیادہ توقعات نہیں ہیں ۔ یہ تو صرف ریاستی بی جے پی یونٹ کے قائدین ہی ہیں جو ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔ ریاست میں 2019 تک ایک قابل لحاظ سیاسی قوت بن کر ابھرنے کے لیے تمام کوششیں کی جارہی ہیں لیکن راجناتھ سنگھ کی تقریر اور جلسہ عام کی صورتحال سے یہ واضح ہوا ہے کہ بی جے پی کے لیے کوئی سیاسی امکانات نہیں ہیں ۔ سابق میں تلنگانہ کے اس اہم شہر نظام آباد میں کئی سیاسی پارٹیوں نے اپنی قسمت آزمائی تھی ۔ تلگو دیشم اور ٹی آر ایس کو بھی اس شہر سے اپنی قسمت چمکانے کا موقع ملا تھا ۔ این ٹی راما راؤ کے دور میں تلگو دیشم نے اپنا پہلا جلسہ عام نظام آباد میں ہی منعقد کیا تھا جس کے بعد تلگو دیشم کو شاندار کامیابی ملی تھی ۔ اسی طرح تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی قیادت نے بھی 2001 میں نظام آباد سے ہی اپنا پہلا عوامی جلسہ عام منعقد کیا تھا اور شمالی تلنگانہ کے اضلاع میں تمام مقامی بلدی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس کے برعکس بی جے پی کو بھی اسی طرح کی سیاسی خوش نصیبی حاصل ہوگی یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ نظام آباد کا سیکولر ووٹر تلنگانہ کے دیگر سیکولر ووٹرس کی سوچ سے مختلف نہیں ہوسکتا ۔ لہذا بی جے پی کی ریاستی قیادت کو اس سیکولر ریاست میں فرقہ پرستانہ ماحول کو بھڑکانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے اب تک جس طرح احتیاطی تدابیر کے ساتھ بی جے پی کے بڑھتے عزائم کا سامنا کیا ہے اسے آئندہ بھی فرقہ پرستوں کے بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے سیکولر کردار کو ہی مضبوط ڈھال بنائے رکھنا ہوگا ۔ بی جے پی ، تلنگانہ میں گذشتہ 18 سال سے 17 ستمبر کا راگ الاپ رہی ہے مگر یہاں کے سیکولر عوام نے اسے کسی بھی موقع پر کامیاب ہونے نہیں دیا ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ تلنگانہ عوام کا یہ جذبہ آئندہ بھی برقرار رہے گا ۔۔