بی جے پی اور حلیف جماعتیں

دور جمہوری میں ہیں دراصل حاکم بس عوام
خود کو حاکم جو سمجھ لے اصلی میں احمق ہے وہ
بی جے پی اور حلیف جماعتیں
آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی نئی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں مصروف ہے وہیں اس کیلئے اس کی موجودہ حلیف جماعتوں میںناراضگی پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ کچھ جماعتیں پہلے ہی این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے جبکہ کچھ دوسری جماعتیں اب اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے لگی ہیں۔ بی جے پی کیلئے سابقہ حلیف جماعتوںکو اپنے ساتھ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تاناشاہی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کے ہٹ دھرمی اور دوسروں کو خاطر میں نہ لانے والے رویہ سے حلیف جماعتیں ناراض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اہم حلیف جماعتیں اس کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں حالانکہ بی جے پی نے شیوسینا کے ساتھ اپنے اتحاد کا اعلان کردیا ہے لیکن یہاں امیت شاہ کو اپنے موقف میں نرمی اور لچک پیدا کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ جس وقت سے گذشتہ انتخابات کے نتائج سامنے آئے تھے بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر پیدا ہوگیا تھا جو مسلسل بڑھتا جا رہا تھا ۔ شیوسینا کی جانب سے ریاست میں بی جے پی کو سبق سکھانے کے منصوبے بنائے جانے لگے تھے ۔ کانگریس اور اس کے صدر راہول گاندھی کی ستائش بھی شیوسینا کی جانب سے کی جا رہی تھی ۔ شیوسینا کے ترجمان اخبار سامنا میں حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے راہول گاندھی کے اٹھائے گئے مسائل پر جواب طلب کیا جا رہا تھا ۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہو رہا تھا ۔ اس سے بی جے پی کی صفوں میں پریشانی اور بوکھلاہٹ تھی ۔ بی جے پی مہاراشٹرا یونٹ حالانکہ قدرے سخت رویہ رکھ رہی تھی لیکن بی جے پی کی قومی قیادت ملک بھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے شیوسینا کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ۔ شیوسینا نے اپنی طاقت کے بل پر بی جے پی کو جھکانے میں کامیابی حاصل کی ۔ گذشتہ سال تلگودیشم نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ بہار میں آر ایل ایس پی نے این ڈی اے سے ترک تعلق کرلیا ۔ اترپردیش میں ریاستی وزیر راج بھر کی پارٹی بی جے پی سے ناراض ہے اور اب اپنا دل نے بھی امیت شاہ کے رویہ پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ تو یو پی اور بہار کی بات رہی ہے جو سیاسی اہمیت سے اہمیت کی حامل ریاستی ہیں۔ اس کے علاوہ شمال مشرق میں الگ بی جے پی کی حلیفیں ناراض ہیں۔ شہریت ترمیمی بل پر شمال مشرق کی این ڈی اے میں شامل جماعتوں نے اختلاف کا اظہار کردیا ہے اور انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر یہ بل منظور ہوجاتا ہے تو این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرلی جائے گی ۔ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی سے بی جے پی کا اتحاد ختم ہوچکا ہے ۔ حالانکہ ٹاملناڈو میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے کو اپنے ساتھ ملانے میں بی جے پی کامیاب رہی ہے لیکن جو جماعتیں پہلے سے این ڈی اے کا حصہ رہی تھیں وہ اپنی ناراضگی اب کھلے عام ظاہر کر رہی ہیں اور راست بی جے پی صدر امیت شاہ کے رویہ پر سوال کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ جہاں نریندر مودی تاناشاہی والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہیں امیت شاہ کا رویہ بھی اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ دوستانہ نہیں ہے بلکہ حاکمانہ ہے اور این ڈی اے میں شامل جماعتیں اب اس رویہ کو برداشت کرنے کو تیار نظر نہیں آتیں۔ ان میں یہ احساس ہے کہ اگر اس رویہ کو خاموشی سے برداشت کیا جاتا رہا تو بی جے پی خود اپنی حلیف جماعتوں کی شناخت بھی ختم کرنے سے گریز نہیں کریگی ۔ کم از کم مودی اور امیت شاہ کے رویہ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کو نہ صرف کانگریس مکت بنانا چاہتے ہیں بلکہ سبھی جماعتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے جس طرح خود بی جے پی میںسینئر ترین قائدین کو حاشیہ پر کردیا ہے اور انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے ان کی اہمیت کو ختم کردیا ہے اسی طرح حلیف جماعتوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ دوستانہ ہرگز نہیں ہے ۔ امیت شاہ تمام حلیف جماعتوں کو بھی اپنے اشاروں پر نچانا چاہتے ہیں لیکن کچھ جماعتیں ہیں جو ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کچھ حلیف یقینی طور پر ایسے ہیں جو اپنے مفادات یا مقدمات کی وجہ سے ان کے اشاروں پر کام کر رہی ہیں لیکن کچھ جماعتیں ایسی حاکمانہ روش کو برداشت کرنے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ جماعتیں ایک جٹ ہو کر اپوزیشن کے اتحاد کا حصہ بنتی ہیں تو امیت شاہ اور مودی کا حاکمانہ اور تاناشاہی والا رویہ خود بی جے پی کیلئے انتخابات میں نقصان کا باعث ہوسکتا ہے ۔