بی جے پی اور اقتدار کی لالچ

خشک ہونٹوں سے ہوا کرتی ہیں میٹھی باتیں محسن
پیاس بجھ جائے تو لہجے بھی بدل جاتے ہیں
بی جے پی اور اقتدار کی لالچ
انتخابات میں مقابلہ کرکے اقتدار حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت کا خواب ہوتا ہے ۔ چاہے وہ ریاستی سطح پر ہو کہ مرکزی سطح پر حصول اقتدار کیلئے ہر سیاسی جماعت اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔ ہماری جمہوریت نے ہر پانچ سال میں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم اسی جمہوریت سے خود سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے کھلواڑ کیا جارہا ہے اور عوام کے سامنے ترقیاتی منصوبے یا عزائم پیش کرنے کی بجائے انہیں نفرت کا شکار کیا جارہا ہے ۔ انہیں فرقوں ‘ ذات پات اور رنگ و نسل میں بانٹا جا رہا ہے ۔ شخصیت پرستی عروج حاصل کرچکی ہے ۔ عوامی مسائل کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کے سامنے کوئی جامع منصوبہ پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ خاص طور پر بی جے پی اقتدار کی ہوس میں اس قدر دیوانی ہوچکی ہے کہ اسے نہ اصول و ضوابط کی فکر ہے نہ اخلاق و اقدار کا پاس و لحاظ کیا جا رہا ہے ۔ ہر اس شخص یا لیڈر کو پارٹی صفوں میں شامل کیا جا رہا ہے جو پارٹی کے حصول اقتدار کے خواب کی تائید کرنے کو تیار ہے ۔ پارٹی اس کیلئے نہ ایسے کسی لیڈر کا پس منظر دیکھنے کو تیار ہے اور نہ اس کا ریکارڈ دیکھا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ایک طرف ہر کس و ناکس کو پارٹی میں شامل کیا جارہا ہے تو دوسری جانب پارٹی کو دو نشستوں سے اقتدار کی دعویداری تک پہونچانے والے سینئر ترین قائدین کو بھی یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال کرناٹک میں پرمود متالک کی اور بہار میں صابر علی کی پارٹی میں شمولیت اور فوری طور پر ان کی رکنیت کی تنسیخ سے ملتی ہے ۔ علاوہ ازیں سینر لیڈر اور سابق وزیر خارجہ مسٹر جسونت سنگھ کو پارٹی نے پہلے تو بارمر حلقہ سے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا اور جب انہوں نے بہرصورت مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پرچہ نامزدگی بحیثیت آزاد امیدوار داخل کیا تو انہیں پارٹی سے خارج کردیا گیا ۔ یہ طرز عمل پارٹی کی اقتدار کی ہوس کو ظاہر کرتا ہے ۔ پارٹی اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہوچکی ہے کہ اسے اب کسی چیز کی پرواہ نہیں رہ گئی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اسے اقتدار حاصل کرنے سب کچھ کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ پرمود متالک وہ شخص ہیں جنہوں نے کرناٹک میں فرقہ پرستی کا کھلے عام پرچار کیا ہے ۔ انہوں نے ہندوستانی کلچر کے تحفظ کے نام پر جس طرح کی بالواسطہ دہشت بپا کر رکھی تھی وہ دنیا بھر کے سامنے ہے ۔ نوجوان نسل میں سدھار کے نام پر وہ فرقہ پرستی کا ایجنڈہ عام کرنا چاہتے تھے تاہم ان کی کوششوں کو کامیابی نہیں ملی اور ان کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ بہار میں پیش آیا جہاں پارٹی نے جنتادل یو سے علیحدگی اختیار کرنے والے لیڈر صابر علی کو بلا سوچے سمجھے شامل کرلیا اور پھر پارٹی نائب صدر مختار عباس نقوی کی شدید مخالفت پر ان کی بھی بی جے پی رکنیت کو منسوخ کردیا گیا ۔ اس مسئلہ پر صابر علی اور مختار عباس نقوی کے مابین لفظی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ نقوی نے صابر علی کو انڈین مجاہدین کے بانی یسین بھٹکل کا دوست قرار دیا ہے ۔ یہ پارٹی میں داخلی خلفشار کی مثال ہے ۔ بہار ہی میں پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی ہی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور انہوں نے انتخابی سیاست کو بھی خیرباد کہدیا ہے ۔

پارٹی کی کئی ریاستی یونٹوں میں بھی پارٹی قیادت کی جانب سے اچانک فیصلے کرتے ہوئے مسلط کئے جانے پر ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت ‘ جو صرف ایک شخص کے اطراف گھومنے لگی ہے ‘ کسی کے اعتراض اور ناراضگی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے اور اس کا احساس ہے کہ نریندر مودی کی شخصیت کی وجہ سے اسے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی مل جائے گی۔ پارٹی اور اس کے قائدین دوسروں پر اخلاقیات و اقدار سے عاری ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں لیکن خود اپنی صفوں میں بہتری لانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ کانگریس پر کرپشن کے الزامات کا سامنے کرنے والے قائدین کو ٹکٹ دینے پر تنقیدیں کر رہے ہیں لیکن وہ مظفر نگر فسادات میں اہم رول ادا کرنے والے قتل اور عصمت ریزی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کو ٹکٹ دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ انتہائی سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے ان ملزمین کو تہنیت پیش کی جا رہی ہے جس سے بی جے پی اور اس کی قیادت کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پارٹی کے پاس کوئی ایجنڈہ یا ترقیاتی منصوبہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام سے رجوع ہو کر اس کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ پارٹی محض نفرت کو فروغ دیتے ہوئے اور فرقہ پرستی کی سیاست کو عروج فراہم کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ملک کے با شعور و فکر مند رائے دہندوں کو اس کے عزائم کو ناکام بنانا چاہئے