بیک وقت انتخابات کی تجویز

ملک میں گذشتہ کچھ دنوں سے یہ مباحث چل رہے ہیں کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کروائے جانے چاہئیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی ایک سے زائد مرتبہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہونے چاہئیں۔ اب نیتی آیوگ کی جانب سے بھی اس تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ اسے عملی شکل دی جاسکے ۔ وزیر اعظم کی تجویز کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نیتی آیوگ نے اس مسئلہ پر تجاویز کی تیاری کا کام بھی شروع کردیا ہے اور اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن سے رائے لینے کے علاوہ کمیشن کو دوسری سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا بھی آغاز کرنے کو کہا گیا ہے ۔ یہ ایسی تجویز ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ملک کے جمہوری ڈھانچہ سے مربوط ہے ۔ اس مسئلہ پر محض کسی کی سہولت یا خواہش کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو ملک کے مفادات اور جمہوری اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنی سہولت اور اپنی مرضی کے مطابق ملک کے اصولوں اور قوانین میں تبدیلیوں کیلئے رائے ظاہر کرتی رہتی ہیں۔ یہ ان جماعتوں کے مفادات سے بھی وابستہ مسئلہ ہے ۔ اس کو سیاسی جماعتوں کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ ملک کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جانا چاہئے ۔ ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات محض ایک ضابطہ کی تکمیل کیلئے بندھے ٹکے اصولوں کی بنیاد پر منعقد نہیں ہوتے بلکہ وہ ریاستوں میں پیش آنے والی صورتحال کے تابع بھی ہوتے ہیں۔ کوئی حکومت جو عوام کی منتخبہ ہو وہ اپنی مرضی سے قبل از انتخابات منعقد کروانے کا بھی اختیار رکھتی ہے لیکن اگر ان انتخابات کو لوک سبھا کے ساتھ یا لوک سبھا انتخابات کو اسمبلیوں کے ساتھ مربوط کردیا جائے تو پھر یہ اختیار ختم ہوجائیگا اور ایسا کرنے کے جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ان کا پوری دیانتداری اور غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنا غیر دانشمندانہ اور جمہوری اصولوں کے مغائر ہوگا ۔ ایسا کرنے سے ملک کے جمہوری ڈھانچہ پر جو منفی اثرات مرتب ہونگے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد کرنے کے نتیجہ میں اخراجات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور بدعنوانیوں پر روک تھام بھی لگائی جاسکتی ہے ۔ یہ ایسا عذر ہے جو محض عوام کو گمراہ کرنے کیلئے پیش کیا جارہا ہے ورنہ تو حکومتیں اور سیاسی جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ انتخابات میں اخراجات کو روکنا کس قدر مشکل ہوگیا ہے ۔ حکومت اگر واقعی انتخابات میں اخراجات کو روکنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ انتخابی اصلاحات کی جو تجاویز کئی برسوں سے زیر التوا ہیں ان کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے ان پر عمل آوری کی سمت اقدام کرے ۔ انتخابات میں بدعنوانیوں اور پیسے کے استعمال سے ہر کوئی واقف ہے اور ملک بھر میں کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے جو اس سے بچی ہوئی ہو۔ ہر جماعت انتخابات میں ایسے امیدواروں کو میدان میں اتارنے کو ترجیح دیتی ہے جو پیسے یا طاقت کے بل پر کامیابی حاصل کرسکے ۔ انہیں اس بات سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا کہ ایسے امیدوارو ں کے کاروبار کیا ہیں ‘ وہ محض کامیابی حاصل کرنے کیلئے جمہوری اصولوں کی کس حد تک دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ان کے خلاف جرائم کے کتنے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان کو کس مقدمہ میں کتنی سزائیں ہوئی ہیں اور ان سزاوں سے بچنے کیلئے پھر انہوں نے قوانین کی کس حد تک خلاف ورزی کی ہے ۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ محض اس کا امیدوار کامیابی حاصل کرلے اور اس کیلئے چاہے قوانین کی جتنی خلاف ورزیاں ہوسکتی ہیں وہ کی جائیں۔
اب جبکہ یہ تجویز زور پکڑتی جا رہی ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد کئے جائیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تجویز کے تمام مثبت و منفی اثرات کا باریک بینی اور غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ملک کے مفادات کا تحفظ ہو ۔ کسی ایک جماعت کے مفادات یا اس کی سہولت کیلئے اس فیصلے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ملک کے انتخابی ڈھانچہ میں جو خامیاں پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کیلئے سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے انتخابی نظام کو خامیوںاور بدعنوانیوں سے پاک کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت یہ جس کی تجاویز بہت پہلے سے پیش کی جاتی رہی ہیں۔ حکومت کو اپنے عزائم کی تکمیل کرنے کی بجائے واقعتا انتخابی نظام کو خامیوں سے پاک کرنے اور انتخابی اصلاحات کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اسوقت تک انتخابات چاہے بیک وقت کروائے جائیں یا علیحدہ کروائے جائیں اس وقت تک بدعنوانیوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا ۔