بینک فراڈس اور قانون

اس لئے اس نے قیامت کے بٹورے بورے
لوٹ کر پھر اسی دنیا میں کب آنا ہے اُسے
بینک فراڈس اور قانون
ہندوستانی عوام کی خون پسینے کی کمائی کو اپنی جیب میں ٹھونسنے والے بینک دھوکہ دہندگان کی فہرست طویل ہوتے جارہی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کو دستیاب ڈیٹا سے انکشاف ہوا ہیکہ گذشتہ 3 سال کے دوران ہی ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں کئی چھوٹے اور بڑے اسکامس ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر متعلقہ بینک عملہ ہی ملوث پایا گیا ہے۔ آر بی آئی کی یہ رپورٹ ہندوستان کی مالیاتی دھاندلیوں کو بے نقاب کرچکی ہے مگر اس رپورٹ کے باوجود ملک کے بینکنگ نظام کی سپریم اتھاریٹی دھوکہ دہندگان کو دبوچ کر انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے سے قاصر ہے۔ جب بڑی طاقتیں اس میں ملوث دکھائی دیتی ہیں تو پھر ہندوستانی عوام کی محنت کی کمائی کو ہڑپ لینے والوں کے خلاف کارروائی کی امید بھی فوت ہوجاتی ہے۔ بینک فراڈس کے کیسوں میں جنوبی ہند کی ریاستوں کا نام لیا گیا۔ ان میں سرفہرست ٹاملناڈو ہے جہاں 170 کیس سامنے آئے ہیں لیکن اسکامس کی رقم صرف 83.09 کروڑ کی ہے جبکہ راجستھان میں صرف 38 کیسوں کی نشاندہی ہوسکی لیکن دھوکہ دہی سے حاصل کردہ رقم 1096 کروڑ روپئے ہے۔ اسی طرح ملک بھر کے مختلف بینکوں میں اپریل 2013ء تا جون 2016ء کے درمیان 2450 کروڑ روپئے کے اسکامس ہوئے ہیں۔ اگر اعلیٰ سطح پر مالیاتی دھوکہ دہی کا یہ رجحان یوں جاری رہا تو ہندوستانی معیشت کو بہتر بنانے کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ دھوکہ دینے والوں تک قانون کے ہاتھ پہنچنے سے پہلے ہی یہ لوگ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ حکومت یا اس کے ادارے بڑے اسکامس کا پتہ چلانے میں ناکام ہوجاتے ہیں اسی طرح کی ناکامیوں کے بعد عوام کا ملک کے قانونی اداروں اور قانون پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ پہلے ہی سے بینکوں میں ہونے والی دھوکہ دہی کے واقعات کو ناقص انتظامات اور دھاندلیوں کا بہانہ بتا کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ جن دھوکہ دہندوں نے اس ملک کے قانون کی آنکھ میں دھول جھونک کر ہندوستان سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے انہیں واپس لانے کی کوئی حتمی کامیابی کا بھی یقین نہیں کیا جاسکتا۔ وجئے مالیا، للت مودی، نیرو مودی اور میہول چوکسی بیرون ملک پناہ لے چکے ہیں۔ یہ لوگ ملک کے قانونی حکام میں پائی جانے والی خامیوں سے بھرپور استفادہ کرنے والے دھوکہ باز ثابت ہوچکے ہیں۔ بینکوں کے اسکامس میں اضافہ کے بعد آیا عوام کی ناراضگی اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر تنقیدوں کا سامنا کرنے کے باوجود اگر سرکاری عملہ بے حسی کا مظاہرہ کرے تو یہ بدبختانہ صورتحال کہلائے گی۔ مودی حکومت نے اب تک بینک اسکامس کے مسئلہ کی سنگینی کو محسوس ہی نہیں کیا تو وہ بینک دھوکہ دہندوں کی گرفتاری اور مفرور افراد کو ہندوستان واپس لانے کی بھی کوشش نہیں کرے گی۔ ملک کے موجودہ قوانین ہی حکومت کو بااختیار بناتے ہیں کہ وہ بدعنوان افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اس میں شک نہیں کہ اسکامس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے حصہ کے طور پر ملک کے قانونی ادارے دھوکہ بازوں کے اثاثہ جات کو قرق کرنے کیلئے قانون کا سہارا لینے میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن قرق کی جانے والی جائیدادیں اور ان کی لاگت بہت کم ہوتی ہے۔ اصل اسکامس کی رقم سے بہت ہی کم رقم حکومت کے ہاتھ لگتی ہے۔ مودی حکومت نے اگرچیکہ بینک اسکامس یا مالیاتی دھوکہ بازوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے ایک قانون لانے کا فیصلہ کیا اب اس قانون کو آئندہ ماہ اپریل میں نافذ کیا جائے گا۔ مفرور معاشی دھوکہ بازوں کے بل 2018ء کو پارلیمنٹ کے تازہ سیشن کے دوران متعارف کیا جارہا ہے۔ اس نئے قانون سے اسکام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد ملے گی اور انہیں زیادہ سے زیادہ سخت سزاء بھی دی جاسکے گی لیکن سوال یہی اٹھے گا کہ آیا حکومت اس سخت قانون کے باوجود اسکام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت دکھا پائے گی کیونکہ ان اسکامس کنندگان کے ہاتھ حکمراں طبقہ کے بڑے ہاتھوں سے ملے ہوئے ہوں تو ان تک سخت سے سخت قانون کے ہاتھ نہیں پہنچ پائیں گے۔ بہرحال حکومت کی نیت صاف اور حکمراں کے ادارے مضبوط ہوں تو بڑے سے بڑے دھوکہ باز کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں دیر نہیں ہوگی۔ پنجاب نیشنل بینک کا فراڈ نے حکومت کی آنکھ کھول دی ہے تو اب اسے بینکوں میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرکے مالیاتی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ بینک نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لانے کی بھی ضرورت ہے۔
نکسلائیٹس کا انکاؤنٹر ۔سنگین خطرات
سیکوریٹی فورس نے ایک بڑی کامیاب کارروائی کرتے ہوئے تلنگانہ اور چھتیس گڑھ پولیس کی مدد سے مشترکہ طور پر 12 ماوسٹوں کا انکاؤنٹر کرکے ہلاک کردیا۔ ہلاک ہونے والوں میں 6 خاتون ارکان بھی شامل تھیں۔ یہ انکاؤنٹر چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کے بھدرادری کوتہ گڈم ضلع کے درمیان پھیلے گھنے جنگلات میں کیا گیا۔ اس انکاؤنٹر سے ریاستی سیکوریٹی حالات پر کیا سنگین خطرات منڈلائیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن سیکوریٹی فورسیس نے پوری دلیری سے ماؤسٹوں کا مقابلہ کیا ہے تو یہ ماضی کی ماؤسٹوں کی کارروائیوں کا جواب ہے کیونکہ ریاستی نظم و نسق سے بغاوت کرنے والے گروپس ہی قتل، اقدام قتل اور دیگر کئی الزامات کے ساتھ حکومت کو مطلوب ہوتے ہیں۔ حکومت بظاہر ان طاقتور گروپس کے سربراہوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ ماؤسٹ گروپ صرف کسی ایک حصہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے تعلقات ہندوستان کی 29 ریاستوں کے منجملہ 20 ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پولیس نے بھی ماؤسٹوں سے خون کا بدلہ خون کا حساب لینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے سیکوریٹی کے مزید سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ ماؤسٹوں نے 2010ء میں ریاست چھتیس گڑھ میں ہی نیم فوجی دستوں کے 76 نوجوانوں کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پولیس، سرکاری دفاتر اور مغویہ سرکاری عہدیداروں کو دھوکہ سے ہلاک کرکے اپنا انتقام لینے آرہے ہیں۔ نکسلائیٹس تحریک 1967 سے ہی شروع ہوچکی ہے لیکن اب تک ہزاروں انتہاء پسندوں کو تیار کرلیا جس کا مقصد مرکزی قیادت کو بیدخل کرکے ہی دم لینا ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر حکومت کو ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہوگی۔