بیعت اک امر شرعی اور سنت رسول ہے

بیعت طریقت کے بے شمار فوائد ہیں، اس سے مرید کو اک رہبر و رہنما مل جاتا ہے ۔ جواذ کار و مجاہدات کے ذریعہ اس کا تزکیہ نفس کرتا ہے ، اس کی روحانیت کو اُبھارتا ہے ۔ اس کے اندر اچھے اخلاق پیدا کرتا ہے اور برے اخلاق کو دور کرتا ہے۔ اس کو تعلق باﷲ اور تعلق بالرسول کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ۔ اس کا تعلق خدا اور رسولؐ سے قائم کردیتا ہے یہ تزکیہ نفس وہی کام ہے جو رسول اﷲ ﷺ کے فرائض منصبی میں شامل رہاہے ۔ فیضان رسالت کا یہ سلسلہ بعض مقربین بارگاہ رسالت صحابۂ کرام سے اور بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے جاری ہوا ، اسی تزکیہ و احسان کا نام بعد میں تصوف و سلوک ہوگیا( کاش یہ اصطلاح نہ بدلتی، آج اس کے خلاف زبان کھولنے کی کسی کو جرات ہی نہ ہوتی) یہ بیعت مرشد کے وسیلہ اور سلسلہ کے ذریعہ سے بیعت رسول قرار پاتی ہے اور رسولؐ سے بیعت کرنا از روئے قرآن اﷲ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔

اس بیعت کے ذریعہ سے آدمی کسی سلسلہ سے وابستہ ہوکر دین کی راہ پر لگا رہتا ہے ۔ اس کو تعلق باﷲ اور تعلق بالرسول کا ایک ذریعہ میسر آجاتا ہے ۔ یعنی معاملات میں مادر پدر آزادانہ آوارہ خیالی سے محفوظ رہتا ہے ۔ اسی وجہ سے بزرگوں نے کہا ہے کہ جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہوتا ہے جو اس کو مختلف وادیوں میں بھٹکاتا رہتا ہے ۔ آج مسلمانوں کے انتشار و افتراق کا ایک سبب یہ بھی ہیکہ سلف صالحین کی روش سے ہٹ کر وہ انتشار ذہنی کا شکار ہوگئے ہیں، طرح طرح کی فرقہ بندیوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور ہر طرف دین کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں ، وجہ صرف یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ سے فیضانِ صحبت اور رشد و ہدایت کے جو چشمے پھوٹے تھے اور سلسلوں کی شکل میں مسلمانوں میں قائم ہوگئے تھے ، مسلمان ان سے دور ہوتے جارہے ہیں، نہ صرف دور ہورہے ہیں بلکہ ان سلسلوں کو اور صاحبان سلاسل کو ، مشائخ عظام کو ، صوفیہ کرام کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان کی تغلیط کی جارہی ہے ان سے نفرت پیدا کی جارہی ہے ۔

بیعت اور سلاسل بیعت پر اعتراض کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ خود ان صوفیہ کرام کے جانشین قرآن و حدیث سے بیگانہ ہوچکے ہیں اور ان میں تصوف کے نام سے من گھڑت باتیں شائع ہوچکی ہیں لا یعنی رسوم و رواج پاگئے ہیں۔ یہ جاہل صوفیہ ہیں جنھوں نے تصوف و سلوک کو بدنام کردیا ہے ۔ اقبالؔ نے انہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے   ؎
زاغوں کے تصرف میں ہے عقابوں کے نشیمن
خانقاہیں جو کبھی رشد و ہدایت کا منبع ہوا کرتی تھیں آج ان میں سے بیشتر جہالت و گمراہی کے اڈے بن گئی ہیں ۔ صوفیہ کرام کے ناخلف جانشینوں نے ان خانقاہوں کو رسواء کردیا ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے نظام خانقاہی کو مطعون کردیا جائے۔ چارپائی میں کھٹمل ہوجائیں تو کھٹمل مارنا چاہئے ، چارپائی کو آگ نہیں لگانی چاہئے ۔ ان بگڑی ہوئی خانقاہوں میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے ۔ آج بھی ایسی متعدد خانقاہیں موجود ہیں جو متقدمین صوفیہ کی روش پر اپنا کام جاری رکھی ہوئی ہیں اور وہاں صبحت رسولؐ اور ارشاد رسولؐ کا فیضان جاری ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ بیعت اک امر شرعی اور سنت رسول ہے اور سلسلۂ طریقت کے ذریعہ تہذیب اخلاق ، تکمیل انسانیت اور روحانی بالیدگی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ اتنا ذہن نشین رکھیں کہ سلوک رسول اکرم ﷺ کے اتباع ہی کا نام ہے ۔ اس کے بغیر راہ صواب مشکل ہی سے ملتی ہے ۔ سنت کو بدعت سمجھنا سراسر گمراہی اور علوم نبوت سے فرار ہے ۔ کچھ لوگ جن کی وجہ شہرت تصوف و سلوک ہے اور وہ کسی سلسلہ طریقت کے خانوادے سے بھی تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے اعمال و اخلاق خلاف شریعت ہیں انھیں دیکھ کر لوگ شک و شبہ میں پڑجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بیعت ، رسول اکرم ﷺ کی سنت اور تعلیم کے خلاف ہے ۔ یہ محض فریب نظر ہے ۔ حقیقت وہ ہے جو اس عاجز نے اوپر بیان کردی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین کاصحیح فہم عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر چلا