بیرونی ممالک میں ہندوستان کی شبہہ ’’ جرائم اور عصمت ریزی کا ایک ملک‘ کے طور پر ۔ ہائی کورٹ

ممبئی۔ ممبئی ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز کہاکہ ملک کے باہر ہندوستان کی شبہہ’ جرائم او رعصمت ریزی کا ایک ملک‘ کی طرح ہوگئی ہے اور اس جگہ کے طور پر پہچاناجارہا ہے جہاں’ آزاد خیال او رسکیولر ذہن کے لوگ محفوظ نہیں ہیں‘۔مذکورہ بنچ نے یہ تاثرات متوفی سماجی جہدکار نریندر دابولکر اور گویند پنساری کے کیس کی سنوائی کے دوران پیش کئے۔

جسٹس ایس سی دھرم ادھیکاری اور بھارتی ڈانگری کی بنچ کا ماننا ہے کہ دنیا اب تعلیمی اور تہذیبی مسائل پر ہندوستان کے ساتھ جڑنے کو تیار نہیں ہے۔

ٹی او ائی کی خبر کے مطابق بنچ نے مزیدکہاہے کہ ’ ملک کے باہر رہنے والے پاس ہندوستان کی شبہہ جرائم اور عصمت ریزی کے واقعات پیش آنے والے ملک کے طور پر ہوگئی ہے۔ جہاں پر بھی ہم جائیں( ملک کے باہر)ہمیں اس طرح کے کئی سوالات کا جواب دینا پڑرہا ہے۔

لوگوں کا یہ خیال ہوگیا ہے کہ آزاد سونچ کے حامل ‘ سکیولر لوگ اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں‘ ان پر کسی بھی وقت حملہ ہوسکتا ہے‘‘۔

پنسارے کی طرف سے نمائندگی کرنے والے وکیل اشوک مونداگری نے عدالت سے کہاکہ ہماری حمایت میں دوسری کسی بھی شعبہ کی تحقیقات سے انصاف کی امیدیں کم ہوگئی ہیں’’ ہماری امید صرف سائنسی تحقیقات‘ اور فون کال کی تفصیلا ت سے حاصل شواہد اور فارنسک وغیر ہ پر منحصر ہے‘‘۔

ایڈیشنل سالیسٹر جنرل انل سنگھ جو ڈابولکر کے قتل میں تحقیقات کررہی سی بی ائی کی عدالت میں نمائندگی کررہے ہیں نے بھی اسی طرح کی رائے پیش کی۔

جس پر عدالت نے پوچھا کہ تو پھر اس کیس کو کس طرح ختم کریں گے’’ کیاہم اس کیس کو بناء نتائج کے خاتم کردیں وہ بھی ایسے حالات میں جب اس قسم کے حالات میں اضافہ ہورہا ہے‘‘۔

ڈابولکر جو کہ مخالف توہم پرستی کے خلاف کام کرتے تھے کو 20اگست 2013کو پونا کے شہر میں صبح کی چہل قدمی کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیاگیاتھا۔

وہیں پنسارے کو اسی طرح کی کاروائیو ں کے خلاف 16فبروری 2015میں کولہا پور کے اندر ان کی بیوی کے ساتھ حملہ کیاگیا۔

بعدازاں وہ 20فبروری 2015کو زخموں سے جانبر نہ ہوسکے۔ ہائی کورٹ نے پچھلے سال اس بات پر غور کیاتھا کہ یہ قتل ’’ منظم ومنصوبہ بند‘‘ ہیں اور حملہ آوروں کو تنظیمیں پشت پناہی حاصل ہے۔