بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا نجم القراء حضرت قاری حاجی محمد عمر صوفی قادری مدظلہ العالی للہیت ، قناعت ، فنی مہارت

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول ِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
قراء کرام نے سلوک کی تکمیل کے لئے قرآن پاک کی تلاوت اور خدمت کو اختیار کیاہے وہ ’’صوت النبی‘‘ کے محافظ ہیں اور سینہ بہ سینہ اس کو منتقل کرتے ہیں نیز قرآن پاک کے حفظ ، تلاوت ، عمل اور اس کی تدریس میں خوب جدوجہد (ریاضت و مجاہدہ) کے ساتھ معانی قرآن پر غور و فکر (فکر و مراقبہ ) کرتے ہیں۔ بلاشبہ وہ اخلاقِ نبوت اور اخلاقِ قرآن کے حامل ہوتے ہیں ۔ تلاوت کی برکت سے عجب ، غرور اور خواہش نفسانی سے دور ہوجاتے ہیں یقین اور اطمینان قلب کی نعمت سے بہرور ہوتے ہیں اور یہی ( عجب، خواہش نفسانی کا ازالہ، اور حصولِ یقین) سلوک کا ثمرہ ہے ۔ بعض اکابر صوفیہ کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ محفوظ ، مختصر اور قطعی ہے گرچہ سلوک بالقرآن میں ذکر و فکر کے بالمقابل وصول دیر سے ہوتا ہے تاہم اس میں زوال کا خوف نہیں رہتا ۔ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محبوب الٰہیؒ نے اپنے خاص مریدین بشمول حضرت امیر خسروؒ کو سلوک بالقرآن کی تلقین کی اور سبب بیان فرمایا کہ اس سے انوار ، احوال اور آثار پیدا ہوتے ہیں۔ انوار و احوال باطنی و معنوی ہیں ان کا ادراک دوسروں کے لئے مشکل ہے تاہم آثار اعضاء بدن پر بوقت تلاوت رقت و خشیت کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ بلاشبہ دوران تلاوت رقت و خشیت کا پیدا ہونا حاملانِ قرآن اور قراء عظام کا وصف امتیاز ہے۔ حضرت برھان الدین غریبؒ کے مطابق ’’خداوند تعالیٰ کی تجلی کلام پاک کے حروف میں تبدیل کردی گئی کہ آنکھ اور دل اس کی تجلی کی تاب لاسکیں ورنہ زمین و آسمان اس کی تجلی کے متحمل نہیں‘‘۔ ( تفصیل کیلئے دیکھئے تذکرۂ قاریان ہند بضمن تذکرۂ حضرت سلطان المشائخ حصہ اول ص : ۹۴، حصہ دوم ص : ۸۵ تذکرہ حضرت خواجہ برھان الدین غریبؒ)

ہمارے ممدوح استاذ گرامی نجم القراء کی حیات طیبہ میں قدیم قراء کرام کے صفات عالیہ کے نمونے ملتے ہیں چنانچہ آپ درس قرآن کے وقت نہایت باادب ہوتے ، آیات عذاب کے وقت آپ پر رقت اور خشیت طاری ہوتی ، آبدیدہ ہوجاتے ، ظاہر نہ ہونے کی حتی المقدور کوشش کرتے موقعہ و مناسبت سے اسباب نزول اور آیات کی تفسیر بیان کرتے گرچہ آپ کسی دینی درسگاہ یا جامعہ سے فارغ التحصیل نہ تھے مگر فارسی اور عربی زبان کے قواعد نحو و صرف سے ضروری حد تک واقف تھے ، دوران درس عربی محاورات اور ضرب الامثال کا ذکر کرتے درس ختم ہونے تک اپنی نشست تبدیل نہ کرتے ، پورے انہماک اور استغراق سے تلاوت سماعت فرماتے طبیعت اختصار پسند ہونے کی بناء مختصر اور جامع قواعدِ تجوید کی تعلیم دیتے ، فنی باریکیوں دقیق مباحث اور دلچسپ لطائف کو بیان کرنے سے بلارادہ گریز کرتے تاہم ادائی مخارج و صفات ، شدّومد ، غنہ وادغام ، تفخیم و ترقیق اور فتح و امالہ میں ادنی سی کمی کو گوارہ نہ کرتے ، فی الفور روکدیتے ۔ ایک سطر میں دس غلطیاں ہوں تو دس مرتبہ تصحیح کرتے ۔ ایک غلطی بھی نظرانداز نہیں کرتے ، بناء بریں آپ سے فیض پانے والے طلباء دقیق قواعد کے حفظ سے زیادہ عملی طورپر ادائیگی میں مہارت رکھتے ہیں، مکمل قرآن سننے کے بعد ہی سند دیتے ، کبھی کسی طالبعلم سے معاوضہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے کچھ اُمید رکھتے حتیٰ کہ اپنے شخصی کام و کاج کے لئے بھی کسی طالبعلم کو زحمت نہ دیتے ، فن قرا ء ت سیکھنے والے طلباء کا ایسا احترام کرتے گویا کہ وہ علماء ہوں ، اونچی آواز میں گفتگو نہیں کرتے ، آپ کی مجلس میں خلافِ مرؤت حرکات و سکنات کبھی ظاہر نہیں ہوتے ، حفظ لسان اور سلامت قلب کے مجسم ہیں ، نام و نمود ، شہرت و ریاکاری سے کوسوں دور ہیں ، عوامی زندگی کے بالمقابل متأہل زندگی گزارنے کو ترجیح دی ۔ تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیوں کو تجوید و قراء ت کی تعلیم دی۔ جب بھی صاحبزادوں کا ذکر کرتے بڑی محبت سے اُن کے نام کے ساتھ ’’قاری‘‘ ذکر کرتے اپنی دھن میں مست اپنی زندگی میں خوش ، دنیا اور اہل دنیا سے لاتعلق ہیں، خصومت اور کدورت سے آپ کا قلب پاک و صاف رہا ، قناعت کی صفت غالب رہی حتیٰ کہ گفتگو بھی بقدر ضرورت فرماتے ، طویل اور بے محل گفتگو کبھی سنی نہیں گئی ، ظریف الطبع ضرور ہیں تاہم نہایت مہذب و باوقار لب و لہجہ میں ظریفانہ قصے نقل کرتے ۔ دوران درس اپنے پیر و مرشد اور حضرات اساتذہ کا عقیدت و محبت میں ڈوبکر ذکر فرماتے ۔ خود رقمطراز ہیں: ’’للہیت اور اخلاص کی بات تو یہ ہے کہ ہم خود کو چھپائیں اور اپنے پیر مرشد ، مربی اور بزرگوں کو ظاہر کریں نہ کہ ان کو چھپائیں اور خود کو ظاہر کریں، وہ بزرگ جنھوں نے ہماری زندگی میں اک انقلاب برپا کردیا اور ہمکو صراط مستقیم پر گامزن کردیا‘‘ ۔ (عرض حال: قرۃ عینی مجموعہ حمد و نعت)

استاذ گرامی نجم القراء کی شخصیت کا ایک حسین خاکہ استاذالشعراء حضرت خواجہ شوق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریظ : ایک طائرانہ نظر ، مجموعہ نعت ’’قرۃ عینی‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۷؁ء میں کچھ اس طرح کھینچا ہے ’’موصوف کی بزرگ شخصیت ہرجہت سے قابل احترام ہے ، کم سخن اور مرنج و مرنجان آدمی ہیں۔ عاشقاں آپ بھلے اپنا دل آرام بھلا کے وصف سے متصف ہیں، درس و تدریس ان کا مشغلہ ہے ، قراء ت عشرہ کی بھی اکثر طالب علموں نے تعلیم پائی ہے ۔ عمر کی ستر (۷۰) سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں، الحمدﷲ متأہل اور ذمہ دارانہ زندگی گزارتے ہیں‘‘۔ آپ کی تحریر ایجاز و اختصار اور جامعیت کا نمونہ ہے ۔ پانچ صفحات پر مشتمل آپ کے تحریر کردہ بعنوان ’’قراء ت عشرہ‘‘ سے ایک اقتباس درج ہے جو آپ کی مجموعہ نعت ’’قرۃ عینی‘‘ کے اخیر میں شامل کیا گیا ہے: ’’قرآن کریم باتجوید ہی منزل من اﷲ ہے جو بقراء ات متواترہ مشہورہ ، اسناد معتبرہ، مسلسلہ ، متصلہ کے ساتھ حضرت رسول اللہ ﷺ سے ہم تک بضبنا رسم الخط مختلف طرق سے محفوظ چلا آیا ہے ۔

قرآن کے لفظ کے قرآنیہ ہونے کے لئے تین شرط ہیں ایک تو یہ کہ نحو کے موافق ہو خواہ نُحاۃ کے نزدیک متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ ۔ دوسرے یہ کہ رسم الخط عثمانی سے بھی نکل سکے خواہ صراحۃً یا ضمناً تیسرے یہ کہ سند اس کی صحیح ہو تو ان تین شرطوں کے ساتھ قرآن مانا جائیگا اگر ان تین ارکان میں سے کوئی رکن بھی خلل پذیر ہوجائے تو سمجھ لو کہ وہ لفظ شاذ ہے اگرچہ وہ سبعہ مشہورہ ہی میں سے کیوں نہ ہو ‘‘۔

آپ ذوقِ شعر و سخن کے حامل ہیں عمرؔ تخلص فرماتے ہیں اپنی قلبی جذبات و کیفیات اور واردات کو بڑی خوبصورتی سے شعر و شاعری کے اوزان میں ڈھالا ہے ۔ بقول حضرت خواجہ شوقؔ ؒ : ’’ان کی نعتیں عشق رسولؐ میں ڈوبی ہوئی اور سوزو گداز کی آئینہ دار ہیں ، ثنائے مصطفویؐ کا انداز انفرادی ہے ، ان کا کلام پڑھنے والا محبت رسولؐ میں گم ہوجاتا ہے ، ان کو نہ ستائش کی تمنا ، نہ صلہ کی پرواز ہے ، اپنے آقاؐ کی مداح سرائی کو اپنا ایمان اور زادِ راہ آخرت سمجھتے ہیں‘‘۔ (قرۃ عینی)
تیری انا تو تجھکو سزاوار ہے مگر
میری انا نے خاک میں مجھ کو ملادیا
لحظہ لحظہ ہے نئی آن رسول عربی
کل یوم ھو فی شان رسول عربی
جو چمکی طورپر برقِ تجلی
اسی شعلہ کی اک تاثیر ہوں میں
کوئی کیا کرسکے ادارک میرا
انا من نور کی تفسیر ہوں میں
حریم ناز کی باتیں ہیں ورنہ
سراپا جرم ہوں تقصیر ہوں میں
آپ عوام الناس میں بالکل غیرمعروف رہے البتہ ، علماء ، مشائخ اور حفاظ کی مجالس میں آپ کی بڑی قدردانی کی جاتی ہے ، عرصہ دراز تک جامعہ نظامیہ کے امتحانات تجوید و قرا ء ت سبعہ و عشرہ کے ممتحن رہے ۔ زیادہ تر خواص نے آپ سے استفادہ کیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مفکر اسلام علامہ مفتی خلیل احمد مدظلہ شیخ الجامعہ نظامیہ نے مجموعہ نعت ’’قرۃ عینی‘‘ پر تقریظ میں آپ کو ’’میرے استاذ محترم ‘‘ لکھا ہے ۔ علاوہ ازیں دوران درس نجم القراء نے بڑی دھیمی آواز سے ذکر کیا تھاکہ حضرت علامہ سید شاہ طاہر رضویؒ صدرالشیوخ جامعہ نظامیہ نے بھی آپ سے استفادہ کیا ہے ۔ قاریانِ ہفت قراء ت کے قدیم رواج کے مطابق آپ نے بھی قراء ت سبعہ و عشرہ کے مکمل قواعد و اختلافات کو قرآن مجید کے حاشیہ اور بین السطور تحریر کیا ہے ، اور حال ہی میں یہ نسخہ آپ نے مفکر اسلام حضرت مفتی خلیل احمد مدظلہ کے حوالے فرمایا تھا ، حضرت شیخ الجامعہ مدظلہ العالی کی خصوصی توجہہ اور عنایت سے اس نسخہ کی طباعت کا کام تیزی سے جاری ہے مخفی مبادکہ تذکرۂ قاریان ہند کے مطابق قرا ء ت سبعہ کے حاشیہ والے قرآن شریف لکھنو سے تین مرتبہ ، دہلی سے دو مرتبہ طبع ہوئے ہیں۔ اس خاکسار کو حفظ قرآن کا دور سنانے کے علاوہ آپ کے پاس قرا ء ت سیدنا امام عاصم کوفیؒ کی تکمیل کا شرف حاصل ہے ۔ آپ نے بوقت تکمیل فرمایا تھا کہ یہ ایک چین ہے جس کی کڑیاں نبی اکرم ﷺ سے مربوط ہیں ، اس کی آخری کڑی نہیں بننا بلکہ دوسروں تک اس فن کو پہنچانا نیز جو لوگ حفظ کرکے بھول جاتے ہیں اُن کے بارے میں ( سورۂ طہ آیت ۱۲۴۔۱۲۵) کا حوالہ دیکر فرماتے کہ ایک تفسیر کے مطابق ان کی دنیاوی زندگی تنگ اور وہ آخرت میں نابینا اُٹھائے جائیں گے ۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو صحت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے ۔ آمین ۔