بڑھیا اور بلّی

کسی ملک میںا یک بڑھیا رہتی تھی جو بہت ہی غریب تھی ۔ اس کی جھونپڑی جاہلوں کے دماغ اور کنجوسوں کے دل کی طرح بے حد تنگ تھی ۔ اس نے ایک بلی پال رکھی تھی جو اس کی واحد دوست تھی ۔ مگر مفلسی کی وجہ سے بڑھیا اسے اس کی مرضی کے مطابق کھانا نہیں کھلاسکتی تھی ۔ بلی مشکل سے روٹی کی شکل دیکھ پاتی تھی ۔
کبھی کبھی وہ کسی سوراخ سے چوہے کی بو پاتی تھی تو اس کے قدموں کے نشانات دیکھ کر اپنی تسکین کرلیتی تھی ۔ یا اتفاق سے کوئی چوہا اس کے ہاتھ آجاتا تو کام چل جاتا تھا ۔ اس وقت وہ اتنی خوش ہوتی جیسے کسی بھکاری کو خزانہ مل جائے ۔ لیکن اس وجہ سے وہ روزبروز لاغر اور کمزور ہوتی جارہی تھی ۔ ایک دن وہ بڑی مشکل سے بڑھیا کے گھر کی چھت پر چڑھی اس کی نظر پڑوسی کی دیوار پر بیٹھی ہوئی ایک موٹی تازی بلی پر پڑی جو کسی شیرنی سے کم نہ نظر آتی تھی اور موٹاپے کی وجہ سے بمشکل چل پھرسکتی تھی ۔ جب اس نے اتنی موٹی تازیبلی دیکھی تو حیران رہ گئی اور چلاّ کے کہا ’’ اے بہن کیا بات ہے جو تم اتنی صحت مند ہو ۔ کیا تم کسی رئیس کی مہمان ہو ؟ یا تمہاری صحت کا راز کچھ اور ہے ؟ پڑوسی کی بلی نے جواب دیا ’’ میں ہر صبح بادشاہ کی بارگاہ میں حاضر رہتی ہوں اور جب دسترخوان بچھایا جاتا ہے تو بہت جرات اور ڈھٹائی کے ساتھ گوشت کی بوٹیوں اور میدے کی روٹیوں پر جھپٹا مارکر بھاگ جاتی ہوںاور اسے کھاکر مطمئن رہتی ہوں ۔ بڑھیا کی بلی نے کہا ’’ گوشت کی بوٹیاں کسے کہتے ہیں ؟ اور میدے کی روٹیاں کیسی ہوتی ہیں ؟ میں نے تو ایک مدت دراز سے سوائے دال اور سوکھی روٹیوں کے اور کبھی کبھی ایک آدھ چوہے کے کچھ دیکھا نہ چکھا ‘‘ پڑوسی کی بلی مسکرائی اور بولی ’’ تجھ میں اور ایک مکڑی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔ ہم بلیوں کی ذات میں تجھ جیسی مریل اور سوکھی بلی کوئی دکھائی نہیں دیتی ۔ مجھے توتجھے دیکھ کر شرم آتی ہے ۔ بڑھیا کی بلی نے کہا ’’ اے بہن ایک پڑوسی کے ناطے میرا بھی تجھ پر کچھ حق ہے اور اگر تو شرط محبت اور مروت بجالائے تو مجھے بھی اس مصیبت سے نجات دلاسکتی ہے ۔ شاید کہ تیری بدولت میں بھی توانائی حاصل کروں اور نئی زندگی پاؤں ۔ پڑوسی کی بلی نے جب بڑھیا کی بلی کی یہ آہ وزاری سنی تو اس کا دل پسیج گیا اور اسے اس پر رحم آگیا اور وعدہ کیا کہ تیرے بغیر آج دسترخوان پر حاضری نہ ہوگی ۔ بڑھیا کی بلی اس وعدے کو سن کر بہت خوش ہوئی ۔ چھت سے کود کر نیچے آئی اور بڑھیا سے تمام ماجرا کہہ سنایا ۔ بڑھیا نے نصیحت کی ۔ ’’ اے میری پیارے بلی ! دنیا والوں کی باتوں میں نہ آ ، اور گوشئہ قناعت کو اپنے ہاتھ سے مت گنوا ، کیونکہ حرص کا برتن سوائے قبر کی خاک کے اور کسی سے نہیں بھرتا اور خواہش کا چاک فنا کی سوئی اور اجل کے دھاگے کے بغیر رفو نہیں کیا جاسکتا ۔ بلی نے بڑھیا کی نصیحت کارگرنہ ہوئی ۔ دوسرے دن پڑوسی کی بلی کے ساتھ خوشی خوشی بادشاہ کے دسترخوان پر پہنچی اور اس سے  قبل کہ کھانے کا مزہ لوٹتی ، اس کی بدقسمتی نے رنگ دکھایا۔’’ تیر انداز اپنی کمان سمیت کمین گاہ میں تیار بیٹھیں اور جیسے ہی بلی دسترخوان کی طرف جھپٹے اس پر تیر چلادیں۔ ایک دل شگاف تیر نے اس کا سینہ چھلنی کردیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی ۔