بچوں کی اچھی تربیت کا اثر

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی

ایک بچہ اسکول میں پڑھتا تھا، جس کو دینیات کے استاد نے یہ نظم سکھائی ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ مرادیں غریبوں کی بر لانے والا‘‘۔ لیکن وہ بچہ جب بھی یہ نظم پڑھتا تو اس طرح پڑھتا:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
مرادیں غریبوں کی بر لانے والے

استاد نے کئی مرتبہ کہا کہ شاعر نے ’’والا‘‘ لکھا ہے، مگر وہ بچہ ’’والے‘‘ ہی پرھتا۔ استاد نے تنبیہ کی کہ وہ اپنی اس غلطی کو ٹھیک کرلے، لیکن بچے نے اپنے طریقے کو بدلا نہیں، یہاں تک کہ اسکول میں منعقدہ ایک تقریب میں اس نے جب یہ نعت شریف پڑھی تو اس نے ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے۔ مرادیں غریبوں کی بر لانے والے‘‘ ہی پڑھا۔ تقریب میں ڈپٹی کمشنر بھی شامل تھا، اس نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’آج کل استاد بچوں کا خیال نہیں کرتے۔ دینیات کے استاد نے بچے کو نعت یا نظم پڑھائی ضرور، لیکن بچے نے ’’والا‘‘ کی بجائے ’’والے‘‘ پڑھا۔ یعنی استاد کو یہ بھی نہیں معلوم کہ شاعر نے کیا لکھا ہے اور بچہ کیا پڑھ رہا ہے‘‘۔

ڈپٹی کمشنر کی اس تقریر کے بعد استاد نے سبکی محسوس کی، حالانکہ اس نے اس بات کی نشاندہی پہلے ہی کی تھی۔ بعد میں اس نے بچے سے کہا کہ ’’تم نے میری بات نہیں مانی، جس کی وجہ سے میری رسوائی ہوئی‘‘۔
چنانچہ سال مکمل ہوا اور بچے اگلے سال کی کلاسوں میں چلے گئے۔ ابھی بچوں کی کلاس کے ابتدائی دن تھے، صدر مدرس نے دیکھا کہ دینیات کے استاد خالی ہیں، لہذا ان سے کہا کہ ’’آپ فلاں کلاس میں چلے جائیں اور اس کلاس کے بچوں سے پیار محبت کی باتیں کرتے رہیں، تاکہ بچے شور نہ مچاسکیں‘‘۔ چنانچہ دینیات کے استاد نے کلاس میں پہنچ کر بچوں کو مخاطب کرکے کہا ’’میں آپ کو کچھ باتیں سناؤں گا اور پھر آپ لوگوں سے چھوٹے چھوٹے کچھ سوال کروں گا‘‘۔ سارے بچے آمادہ ہو گئے تو استاد نے انھیں کافی باتیں بتائیں اور جب تھک گئے تو استاد نے بچوں سے چھوٹے چھوٹے سوالات شروع کردیئے۔ کسی سے کچھ پوچھا، کسی سے کچھ پوچھا، تاہم جب اس لڑکے کی باری آئی، جو نعت شریف پڑھنے کے دوران ’’والا‘‘ کی بجائے ’’والے‘‘ پڑھا کرتا تھا تو اس سے استاد نے پوچھا ’’یہ بتاؤ ہمارے پیغمبر علیہ السلام کا نام کیا ہے؟‘‘۔

استاد کے سوال کرنے پر وہ لڑکا اٹھ کر تو کھڑا ہو گیا، لیکن جواب کچھ بھی نہیں دیا۔ واضح رہے کہ اس لڑکے کا نام ’’احمد‘‘ تھا۔ استاد نے جب دوبارہ پوچھا تو پھر بھی وہ خاموش رہا۔ استاد کے دل میں یہ بات آئی کہ ’’یہ لڑکا میری توہین پہلے بھی کرواچکا ہے اور اب اس سے پوچھ رہا ہوں تو جواب بھی نہیں دے رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ لڑکا بڑا ضدی قسم کا ہے‘‘۔ چنانچہ استاد نے چھڑی ہاتھ میں لی اور بچے کے قریب پہنچ کر کہا ’’تمھیں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا نام معلوم ہے؟‘‘۔ لڑکے نے سر ہلاکر کہا ’’جی ہاں‘‘۔ استاد نے کہا ’’پھر بتاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘۔ لڑکا پھر بھی خاموش رہا تو استاد نے اس کی پٹائی کردی۔

یہ واقعہ دیکھ کر کلاس کے سارے بچے حیران و پریشان تھے اتنا نیک اور دین کا علم رکھنے والا بچہ، اس کے باوجود استاد کے سوال کا جواب نہیں دے رہا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی کلاس ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی اور استاد نے جاتے جاتے کہا کہ ’’اگلی گھنٹی میں میں پھر آؤں گا اور تم سے پھر یہی سوال کروں گا، دیکھتا ہوں تم میرے سوال کا جواب کس طرح نہیں دیتے!، میں تمہاری ضد ختم کرکے رہوں گا‘‘۔

کلاس کے کچھ بچے ایسے تھے، جو احمد کے دوست تھے، وہ اس کے قریب بیٹھ گئے اور رنج و غم کا اظہار کرنے لگے، کیونکہ اس سے پہلے احمد کے ساتھ کبھی کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کبھی اسے مار پڑی تھی، تاہم کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔

احمد اپنے آنسو پونچھتا ہوا کلاس سے باہر نکلا اور نل کے پاس پہنچ کر اچھی طرح سے منہ ہاتھ دھویا اور وضوء بنانے کے بعد اپنی کلاس میں پہنچ کر پھر بیٹھ گیا۔ جب سارے بچے کلاس میں بیٹھ گئے تو استاد نے اپنی چھڑی لہراتے ہوئے احمد سے کہا کہ ’’کھڑے ہو جاؤ‘‘۔ استاد نے پھر احمد سے پوچھا کہ ’’ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کیا ہے؟‘‘۔ احمد نے فوراً جواب دیا ’’حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ استاد بہت خوش ہوئے اور بچے سے پوچھا ’’پہلے تم نے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘۔ تاہم احمد خاموش رہا۔ استاد نے سمجھ لیا کہ بچے کے جواب نہ دینے کے پیچھے ضرور کوئی راز ہے، لہذا استاد احمد کے قریب پہنچے، اپنا دست شفقت اس کے سر پر رکھا، اپنے سینے سے لگایا اور پھر رخسار کو بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’احمد! تم میرے بیٹے کی طرح ہو۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ پڑھنا، لیکن تم نے ’’والے‘‘ پڑھا تھا اور اب جب تم سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پوچھا گیا تو تم نے نام بھی نہیں بتایا، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘۔

استاد کے اس سوال کے بعد بچے نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا، لیکن جب استاد نے احمد کو تسلی دی اور اس کو پیار دیا تو اس نے بتایا کہ ’’بات دراصل یہ ہے کہ میرے ابو اس دنیا سے فوت ہوچکے ہیں، ان کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی، وہ مجھے ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ ’’بیٹا! تم کبھی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بے ادبی سے نہیں لینا‘‘ اس لئے میں نے ’’والا‘‘ کی بجائے ’’والے‘‘ پڑھا تھا۔ اسی طرح میرے ابو نے مجھے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کبھی بھی بے وضوء نہ لینا‘‘۔ جب آپ نے مجھ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک پوچھا تھا تو اس وقت میں بے وضوء تھا، لہذا میں نے آپ کی مار کھالی، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بے وضوء نہیں لیا۔ اب میں باوضوء ہوں، لہذا میں نے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بتادیا‘‘۔

والدین کے لئے غور طلب بات ہے کہ ایک کمسن بچہ اپنے مرحوم والد کی نصیحت کو کس طرح یاد رکھتا ہے، یعنی سزائیں برداشت کر رہا ہے، مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی بے وضوء لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ اثر ہوتا ہے والدین کی تربیت کا، اگر آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں گے تو یہی بچے بڑے ہوکر اللہ کے ولی بن سکتے ہیں اور اگر اچھی تربیت نہیں کریں گے تو یہی بچے آپ کے لئے پریشانی کا باعث بن جائیں گے۔ (تربیتی بیانات سے اقتباس)