بچوں کو دَھمکانے اور مارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
بچوں کو برے دوستوں سے بچانے کا اہتمام کریں، کیونکہ ایسے دوستوں سے ایسی گندی باتیں سیکھ لیتے ہیں، جن کا والدین تصور بھی نہیں کرسکتے، لہذا ماں باپ دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھیں اور یہ غور کریں کہ ان کا بچہ کن لوگوں کے پاس اٹھتا بیٹھتا ہے، یعنی اپنے ذرائع سے وہ اس بات کا پتہ کرتے رہیں اور استاد سے بھی کہیں کہ وہ بچے پر نظر رکھے۔

بچے کے دوست اگر اچھے ہوں گے تو اس کی زندگی کی کشتی کنارے لگ جائے گی اور اگر برے ہوئے تو اس کی کشتی کو بیچ دھارے میں ڈبو دیں گے، یعنی دوست ہی بناتے ہیں اور دوست ہی بگاڑتے ہیں۔ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘‘۔ اس لئے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جیسے ہی آپ کے بچے (لڑکا یا لڑکی) بڑے ہوں، ان پر نظر رکھیں کہ وہ کن بچوں کی صحبت میں رہتے ہیں، وہ نمازی ہیں یا نہیں؟، نیک گھروں سے ان کا تعلق ہے یا نہیں؟، پردہ کا خیال رکھنے والے ہیں یا نہیں؟۔ اگر وہ بچے گناہوں میں ملوث رہنے والے ہیں تو کل آپ کے بچے بھی ان ہی جیسے بن سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگ اپنے بچوں کو یہ نصیحت کرتے تھے تھے کن لوگوں کو اپنا دوست بنائیں اور کن لوگوں سے دور رہنا چاہئے۔

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ نصیحتیں کی تھیں کہ ’’بیٹا! پانچ لوگوں سے دوستی نہ کرنا، بلکہ اگر کہیں راستے میں چل رہے ہوں تو ان کے ساتھ مل کر نہ چلنا، وہ اتنے خطرناک ہوتے ہیں‘‘۔

میں نے پوچھا ’’وہ کون لوگ ہیں؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا ’’ایک جھوٹے شخص سے دوستی نہ کرنا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیوں‘‘۔ انھوں نے فرمایا ’’اس لئے کہ وہ دور کو قریب دکھائے گا اور قریب کو دور دکھائے گا، اس طرح تمھیں دھوکے میں رکھے گا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’دوسرا کون شخص ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’تم کسی بخیل سے دوستی نہ کرنا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’وہ تمھیں اس وقت چھوڑدے گا، جب تمھیں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی، وہ تمھیں دھوکہ دے جائے گا، اس لئے ایسے شخص سے دوستی نہ کرنا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’تیسرا شخص کون ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’کسی فاسق و فاجر سے دوستی نہ کرنا‘‘ یعنی جو اللہ کے احکام توڑنے والا ہو، اس سے دوستی کبھی نہ کرنا۔ میں نے پوچھا ’’کس لئے؟‘‘۔

آپ نے فرمایا ’’اس لئے کہ وہ تمھیں ایک روٹی کے بدلے بیچ ڈالے گا، بلکہ ایک روٹی سے کم کے بدلے میں بھی بیچ دے گا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ابا جان! ایک روٹی کے بدلے میں بیچنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر ایک روٹی سے کم میں کیسے بیچے گا؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’بیٹے! وہ ایک روٹی کی امید پہ تمہارا سودا کردے گا اور تمھیں قیمت کا پتہ بھی نہیں چلنے دے گا۔ یعنی فاسق بندے کا کیا اعتبار ہے، جو خدا کے ساتھ وفادار نہیں، وہ بندوں کا وفادار کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘۔ پھر آپ نے چوتھے شخص کے بارے میں فرمایا کہ ’’بیوقوف سے دوستی نہ کرنا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کس لئے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’اس لئے کہ وہ تمھیں نفع پہنچانا چاہے گا، مگر تمھیں نقصان پہنچا دے گا‘‘۔ پھر میں نے پوچھا ’’پانچواں شخص کون ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’قطع رحمی کرنے والے، رشتے ناطے توڑنے والے اور بے وفا انسان سے دوستی نہ کرنا، کیونکہ بے وفا بالآخر بے وفا ہوتا ہے‘‘۔

بچوں کو دھمکانا یا مارنا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ آپ اپنے چہرہ کے ذریعہ غصہ کا اظہار کریں اور بچوں کو مارنے سے گریز کریں۔ جو والدین بچوں کو مارتے ہیں، وہ اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ ’’میں اپنے بچے کو سمجھانے میں ناکام ہو گیا‘‘۔ مارنے پیٹنے سے بچے نہیں سمجھتے، اس لئے ان کو مارنے کی بجائے سمجھانے اور ڈانٹ ڈپٹ کی حد رکھیں۔ ہاں اگر کوئی اصولی غلطی، بدتمیزی یا گناہ کبیرہ کرڈالے تو اب وہ سزا کا مستحق ہے، تاہم حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کریں۔

اپنے گھر کے بچوں کے لئے کتابوں کی لائبریری ضروری بنائیں، تاکہ بچوں کو پڑھنے کے لئے اچھی اچھی کتابیں مل سکیں اور وہ لغو کھیلوں میں مصروف ہونے کی بجائے کتابیں پڑھیں۔ بچوں کے لئے ایسی کتابیں جمع کریں، جو خاص طورپر بچوں کے لئے لکھی گئی ہوں، یعنی اچھی کہانیوں اور اچھے نتیجے والی ہوں، جن کو پڑھ کر بچے خوش رہیں۔ اسی طرح والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کا نظام الاوقات بنادیں کہ اس وقت ان کو سونا ہے، اس وقت نہانا ہے، اس وقت کھانا کھانا ہے، اس وقت پڑھنا ہے اور اس وقت ان کو کھیلنا ہے۔ اس سے ان کی صحت پر اچھا اثر ہوگا اور جب صحت اچھی ہوگی تو پھر دماغ بھی اچھا ہوگا۔

پھر جب آپ کے بچے بڑے ہو جائیں اور جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے لئے اچھا رشتہ ڈھونڈیں، مگر ان کی پسند کا ضرور خیال رکھیں۔ یہ بات ضرور پیش نظر رکھیں کہ لڑکا کے لئے بہو تلاش کریں یا لڑکی کے لئے داماد ڈھونڈیں، ہر دو کے اندر کے یہ ضرور دیکھیں کہ ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہو، کیونکہ خدا کا خوف ایک ایسی چیز ہے، جس سے آپ کا بیٹا اور بیٹی دونوں ہمیشہ خوش رہیں گے۔ یعنی بہو آپ کے لئے خدمت گزار ثابت ہوگی اور داماد ہمیشہ آپ کی بیٹی کو خوش رکھے گا۔ لیکن جب دل میں خدا خوف نہیں ہوتا تو لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، لہذا جہاں دیگر چیزوں کو دیکھیں، وہیں اس نکتے پر ضرور غور کریں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک شب آپ پہرا دیتے ہوئے گزر رہے تھے کہ ایک گھر سے کچھ آواز آئی۔ آپ نے قریب ہوکر سنا تو ایک خاتون اپنی جوان بیٹی سے بات کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ’’دودھ میں تھوڑا سا پانی ملادو‘‘۔ بیٹی نے کہا ’’امی! میں ایسا ہرگز نہیں کروں گی‘‘۔ خاتون نے کہا ’’کیا تمہارا یہ عمل امیر المؤمنین عمر بن خطاب دیکھ رہے ہیں؟ جس کی وجہ سے تم دودھ میں پانی نہیں ملانا چاہتی ہو؟‘‘۔ بیٹی نے کہا: ’’امیر المؤمنین نہیں دیکھ رہے ہیں تو کیا ہوا، پروردگار عالم تو دیکھ رہا ہے، لہذا میں دودھ میں پانی ہرگز نہیں ملاؤں گی‘‘۔

حضرت فاروق اعظم نے دن میں اس خاتون اور لڑکی دونوں کو طلب کیا اور ان سے پوچھ تاچھ کی۔ اسی دوران جب امیر المؤمنین کو یہ معلوم ہوا کہ لڑکی ابھی کنواری ہے تو آپ نے اس خاتون سے کہا کہ ’’میں اپنے بیٹے کے لئے اس لڑکی کا رشتہ مانگتا ہوں‘‘۔ پھر آپ نے اپنے صاحبزادے کے ساتھ اس لڑکی کا عقد کردیا۔ (تربیتی بیانات سے اقتباس)