بنگلہ دیش میں حکومت کا قیام

جب کوئی مخالف نہ ہو تشکیل حکومت
اک قابل تعریف کرشمہ تو نہیں ہے
بنگلہ دیش میں حکومت کا قیام
بنگلہ دیش میں عوامی لیگ پارٹی کی سربراہ شیخ حسینہ کو تیسری مرتبہ ملک کی وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف دلایا گیا ہے ۔ شیخ حسینہ اس سے قبل بھی دو مرتبہ وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھال چکی ہیں۔ انہوں نے گذشتہ دنوں ہوئے انتخابات میںاپنی پارٹی کو کامیابی دلائی تھی ۔ یہ کامیابی حالانکہ سیاسی اعتبار سے غیر اہم ہے کیونکہ انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے شرکت نہیں کی ۔ خاص طور پر ملک کی اصل اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اپنی دیگر 17 حلیف جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا ۔ ایسے میں عوامی لیگ پارٹی کی کامیابی یقینی سمجھی جارہی تھی اور پھر اسے اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کا موقع بھی مل گیا ۔ انتخآبی عمل میں کتنی سنجیدگی اور کتنی واجبیت رہی ہے یہ سوال اب زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ عمل مکمل ہوچکا ہے اور عوامی لیگ حکومت کو حلف بھی دلادیا گیا ہے تاہم اب حکومت کے سامنے ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے اور عوامی زندگیوں میں بہتر تبدیلی لانے کا فریضہ ہے ۔ بنگلہ دیش کے جو داخلی حالات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ سارا ملک پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہے ۔ وہاں غربت وافلاس کا عروج ہے ‘ بیروزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے ‘ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے جس کا اثر راست عوام کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے ‘ ملک میں نظم و قانون کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ عرصہ میں نظم و قانون نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہ گئی تھی ۔ انتخابات کے دوران اور ما بعد انتخابات جو تشدد پیش آیا تھا اس میں درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ۔ سیاسی کارکنوں کا قتل اور جوابی قتل تقریبا عام بات ہوگئی تھی ۔ پولنگ کے دن بھی جس طرح سے تشدد اور لوٹ مار کے واقعات پیش آئے تھے وہ بھی انتہائی افسوسناک تھے ۔ بحیثیت مجموعی جو حالات بنگلہ دیش میں تشکیل پائی نئی حکومت کے سامنے ہیں وہ اس کیلئے آسان نہیں کہے جاسکتے ۔ اسے کئی محاذوں پر چیلنجس کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے میں حکومت کو اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کو اپنی کوششوں کی راہ میں رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور کئی مراحل ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ حکومت کو آئندہ وقتوں میں اپنے لئے مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک جامع اور مبسوط حکومت عملی کے ذریعہ آگے بڑھنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کی ضرورت ہوگی ۔

حکومت کیلئے ملک کو قوم کو درپیش مسائل کی یکسوئی کی کوششیں آسان نہیں ہوسکتیں۔ اسے سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور سب کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔ ایسا کرنا مسائل کے تئیں سنجیدگی کے اظہار کیلئے ضروری ہے ۔ اسے اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمنٹ میں رکاوٹ درپیش نہیں ہے لیکن جو رکاوٹ عوامی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیدا کی جائیگی وہ پارلیمنٹ میں آنے والی رکاوٹ سے زیادہ مشکل ہوسکتی ہے ۔ خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھلے ہی انتخابات میں حصہ نہ لیا ہو اور اسے پارلیمنٹ میںداخلہ کی اجازت نہ ہو لیکن عوامی سطح پر احتجاج شروع کرنے اور ملک گیر ہڑتال کرنے سے اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ خاص طور پر جس طرح سے عوامی لیگ پارٹی کو اقتدار برقرار رکھنے کا موقع ملا ہے اور اس کی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی ہے اس کے بعد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے حکومت کے خلاف ہر طرح کے احتجاج کی امید رکھی جاسکتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے انتخابی عمل کو پس پشت ڈال کر حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے سبھی گوشوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ عوامی سطح پر مہم چلاتے ہوئے سیاسی قائدین کو روک لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا لیکن اس کیلئے سیاسی تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہوگی جس کا وزیر اعظم شیخ حسینہ کو مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ داخلی سطح پر بنگلہ دیش کو جو مسائل درپیش ہیں وہ ایسے ہیں جن کی یکسوئی آسان نہیں ہے ۔

اس کیلئے بے تکان جدوجہد کی ضرورت ہوگی اور مالی وسائل کی بھی ضرورت ہوگی ۔ بنگلہ دیش کی معاشی حالت ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ مالیہ کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں ہوگی ۔
شیخ حسینہ کی قیادت میں جو حکومت قائم ہوئی ہے اسے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے معاشی استحکام اور لا اینڈ آرڈر کی برقراری پر توجہ دینی ہوگی ۔ گذشتہ عرصہ سے جو حالات رہے ہیں ان کے نتیجہ میں جہاں لا اینڈآرڈر ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا وہیں معیشت بھی بری طرح متاثر رہی ہے ۔ مسلسل ہڑتالوں کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں تقریبا رک سی گئی تھیں اور قتل و خون اور غارت گری کا بازار بھی گرم رہا ہے ۔ حکومت کو سیاسی سوچ و فکر کو ترک کرتے ہوئے عوامی مسائل کی یکسوئی کی سمت توجہ کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی ۔ جتنی بھی سیاسی جماعتیں انتخابی عمل سے گذر کر پارلیمنٹ تک پہونچی ہیں نہ صرف ان کو بلکہ جن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا ان کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ خلوص نیت کے ساتھ اگر کوشش کی جائے تو ان جماعتوں کو ساتھ لینا ناممکن نہیں ہوسکتا حالانکہ بہت زیادہ مشکل ضرور ہوسکتا ہے ۔ شیخ حسینہ کی حکومت کو اب بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش کے عوام کی بہتری اور روشن مستقبل کے تعلق سے جو وعدہ کئے گئے تھے ان پر عمل آوری شروع کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ حکومت اور عوامی منتخبہ حکومت ہونے کا تاثر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔