بنگلہ دیش میں انتخابات کے دوران تشدد‘21 ہلاک

200سے زائد پولنگ اسٹیشن نذرآتش‘بعض مراکز پر صفر رائے دہی
ڈھاکہ۔5جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں آج تشدد کے واقعات پیش آئے اور انتہائی کم رائے دہی ریکارڈ کی گئی ‘ جبکہ 21 افراد تشدد کی نذر ہوگئے اور ملک بھر میں اپوزیشن بی این پی زیرقیادت اتحاد کے حامیوں نے 200سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کو آگ لگادی ۔ اپوزیشن اتحاد نے متنازعہ انتخابات کو فریب قرار دیا ہے ۔ 18جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد کے تقریباً 11حامی رنگ پور ‘ دیناج پور ‘ نلپھماری ‘ فینی اور منشی گنج میں ہلاک ہوئے ۔ ان حامیوں نے انتخابات کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے پہلے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے ۔ آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ چونکہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے ایسے میں برسر اقتدار عوامی لیگ بنگلہ دیش میں دوبارہ اقتدار حاصل کرلے گی ۔ اس بار بہت کم تعداد میں رائے دہندے گھروں سے باہر آئے اور انہوں نے ووٹ کا استعمال کیا ۔ رائے دہندوں کی اکثریت نے تشدد کے خوف سے اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دی ۔ بنگلہ دیش کے 59اضلاع میں واقع 300 حلقوں کے منجملہ 147میں رائے دہی کا 8بجے صبح آغاز ہوا ۔ پولیس کے ساتھ پیراملٹری بارڈرگارڈس اور ایلیٹ ریاپڈ ایکشن بٹالین فورسیس تعینات کی گئی تھی ۔ حکمراں عوامی لیگ اور اس کی حلیف جاتیہ پارٹی کے 390امیدوار 147نشستوں کیلئے مقابلہ کررہے ہیں ‘ حالانکہ یہ انتخابات مکمل طور پر یکطرفہ ہیں اور ہندوستان کے علاوہ عالمی طاقتیں انتخابات پر نظررکھے ہوئے ہیں ۔

مابقی 153نشستوں پر مقابلہ نہیں ہورہا ہے کیونکہ یہاں امیدواروں کو بلامقابلہ کامیاب قرار دیا گیا ہے ۔اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی زیرقیادت اتحاد انتخابات کا بائیکاٹ کررہا ہے ۔ جن 147حلقوں میں رائے دہی ہورہی ہے وہاں رائے دہندگان کی تعداد تقریباً 44,000,00 ہے اور یہاں رائے دہی کا فیصد انتہائی کم ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ بعض پولنگ سنٹرس پر ابتدائی اوقات میں رائے دہی صفر رہی ۔ رائے دہی سے عوام کی دوری کے نتیجہ میں اپوزیشن کو آج کے پارلیمانی انتخابات کے جواز کو چیالنج کرنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے ۔ اس سے پہلے 1996ء میں بھی اسی طرح کے انتخابات ہوئے تھے جہاں عوامی لیگ نے بحیثیت اپوزیشن بائیکاٹ کیا تھا اور اُس وقت صرف 7فیصد رائے دہی ریکارڈ کی گئی جس کی وجہ سے خالدہ ضیاء کی زیرقیادت بی این پی حکومت کو اندرون ایک ماہ غیرجانبدار نگرانکار سسٹم کے تحت انتخابات کیلئے مجبور ہونا پڑا تھا ۔ چیف الیکشن کمشنر قاضی رکاب الدین احمد نے پہلے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسیس کی بھاری تعداد میں تعیناتی سے رائے دہندگان میں اعتماد پیدا ہوگا اور وہ رائے دہی میں حصہ لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور 160 پولنگ سنٹرس پر رائے دہی ملتوی کرنی پڑی کیونکہ ان سنٹرس پر لوٹ مار اور بیالٹ باکسیس اور بیالٹ پیپرس چھین لینے کے واقعات پیش آئے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں نے 200سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کو نذرآتش کردیا ۔