بنگلہ دیش ما بعد انتخابات

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
بنگلہ دیش ما بعد انتخابات
بنگلہ دیش میں انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی برسر اقتدار عوامی لیگ پارٹی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے ۔ حالانکہ ان انتخابات کی وہ اہمیت نہیں رہ گئی تھی کیونکہ بنگلہ دیش کی اصل اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے علاوہ مزید 16 سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا ۔ ان جماعتوں کا الزام تھا کہ عوامی لیگ حکومت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں غیر جانبداری نہیں رہ سکتی اور بدعنوانیاں و دھاندلیاں ہوسکتی ہیں۔ ان جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ ملک میں ایک جانبدار نگران کار حکومت قائم کرتے ہوئے انتخابات کروائے جائیں ۔ اس مطالبہ کو برسر اقتدار عوامی لیگ پارٹی نے مسترد کردیا تھا اور اس نے نگران کار حکومت بھی خود اپنی نگرانی میں قائم کی تھی ۔حالانکہ دوسری تمام جماعتوں اور خاص طور پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو اس عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی لیکن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا ۔ کل ہوئی پولنگ میں عوامی لیگ پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ ان انتخابات میں بنگلہ دیش کے رائے دہندوں کی بھی ایک بڑی تعداد غیر حاضر رہی ۔ رائے دہی کا تناسب انتہائی کم رہا اور عوام کی اکثریت نے اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دی تھی ۔ انہوں نے عملا انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا ۔ پولنگ کے دوران تشدد کے بھی بے شمار واقعات پیش آئے تھے ۔ انتخابی تشدد میں پولنگ کے دن ہی 21 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ۔ کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے ۔

آگ زنی کے واقعات بھی پیش آئے ۔ بحیثیت مجموعی بنگلہ دیش کا انتخابی عمل اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا ۔ جہاں اپوزیشن جماعتیں اس سے دور رہیں وہیں ملک کے رائے دہندوں نے بھی اس عمل میں اپنا حصہ ادا نہیں کیا تھا ۔ تاہم انتخابی عمل علامتی طور پر ہی صحیح مکمل ہوچکا ہے اور اب وہاں عوامی لیگ پارٹی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوگیا ہے ۔ اس کامیابی کے بعد عوامی لیگ پارٹی کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور اسے اب ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے نئے سرے سے جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ جو بحران اور کشیدگی ہے اسے دور کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچائی جاسکے ۔ بحیثیت حکمران جماعت اس پر ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ملک کو بحران کی کیفیت سے نکال باہر کرے ۔

انتخابات سے قبل بنگلہ دیش میں جو حالات تھے وہ بھی درست نہیں تھے ۔ وہ بھی بحران کی ہی کیفیت تھی جو انتخابات کے بعد بھی برقرار رہنے کے اندیشے ہیں۔ انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کی مسلسل ہڑتال اور احتجاج کی وجہ سے معاشی اور تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی تھیں۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ قتل و خون اور غارت گری کا بازار گرم ہے ۔ عوام کو انتہائی ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ملک کی جو معاشی صورتحال پہلے ہی ابتر تھی وہ مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے سرگرم ہوجائے ۔ ملک کی معیشت کو سب سے پہلے بہتری کی راہ پر گامزن کرنا اور اسے مستحکم کرنا حکومت کا فرض اولین ہے ۔ پہلے ہی بنگلہ دیش انتہائی معاشی پستی کا شکار ہے ۔ اب مزید بحران کی وجہ سے حالات ناگفتہ بہ ہوگئے ہیں۔ ایسے میں جب تک ملک کی معاشی حالات میں سدھار پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک دوسرے محاذوں پر صورتحال کو بہتر بنانا ممکن نہیں ہوگا ۔ صنعتی سرگرمیاں جو ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں ان کا احیاء عمل میں لانے کیلئے حکومت کو ہر ممکن جدوجہد کرنی ہوگی ۔ عوام میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر خاص توجہ دینی ہوگی کیونکہ نوجوانوں کو روزگار سے مربوط کرتے ہوئے حکومت ان کی دوسری سرگرمیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ جب ملک کی معاشی صورتحال مستحکم ہوگی تو عوام کی توجہ بھی دیگر مسائل سے بٹ سکتی ہے ۔ لا اینڈ آرڈر بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت کو ترجیحا کام کرنا ہوگا ۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر بناتے ہوئے عوام میں احساس تحفظ پیدا کیا جاسکتا ہے اور انہیں معاشی سرگرمیوں کی سمت راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ لا اینڈ آر ڈر کو بہتر بنانے حکومت کو کچھ فراغدلانہ اقدامات بھی کرنے ہونگے اور اسے کسی طرح کی سیاسی تعصب پرستی سے کام لینے سے گریز کرنا چاہئے ۔

عوامی لیگ کی حکومت کو اب ملک کو آگے بڑھانے اور ملک و ملک کے عوام کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ لینے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ حالانکہ اپوزیشن جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کرنے اور عوامی لیگ کو اقتدار مل جانے کے بعد حکومت سے تعاون کرنے اور حکومت کے کسی کام میں شریک ہونے سے گریز کرینگی لیکن حکومت کو اپنے طور پر فراخدلی کے ساتھ ملک کی بہتری کو نظر میں رکھتے ہوئے ان جماعتوں کو ساتھ لینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔ اس کو چاہئے کہ وہ ملک کے عوام میں بھی اعتماد اور تحفظ کی فضا بنانے میں پہل کرے ۔ ملک کے عوام کو حکومت کے ساتھ لانا بھی بہت اہمیت کا حامل کیونکہ عوام کی اکثریت نے رائے دہی میں حصہ لینے سے گریز کیا ہے ۔ عوام کو حکومت کے قریب لانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ حکومت کو سیاسی انتقام کی راہ سے گریز کرتے ہوئے مثبت سوچ اور فکر کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جو انتہائی ابتری اور ناگفتہ بہ حالت ہے اس کو درست کرتے ہوئے عوام کی بہتری کیلئے سرگرم ہوجانا چاہئے۔