بنگال ‘ بی جے پی کے نشانہ پر

کیا بات کوئی اُس بُتِ عیّار کی سمجھے
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
بنگال ‘ بی جے پی کے نشانہ پر
بی جے پی ملک کی مختلف ریاستوںمیں جہاں جہاں غیر بی جے پی جماعتوں کی حکومتیں ہیں وہاں خاص طور پر حالات کو بگاڑنے اور اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے سرگرم ہوچکی ہے ۔ بی جے پی صدرا میت شاہ ایک کے بعد دوسری ریاست کو نشانہ بنانے کی مہم میں جٹ گئے ہیں اور یہ سب کچھ آئندہ لوک سبھا انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی نے گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں جن ریاستوں میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی ان میں بی جے پی کی حالت انتہائی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر اترپردیش میں بی جے پی کو اتنی نشستیں نہیں مل سکتیں جتنی اس نے سابق میںحاصل کی تھیں اور اگر ریاست میںکانگریس۔ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے مابین اتحاد بن جاتا ہے تو پھر بی جے پی کی حالت مزید کمزور ہوسکتی ہے ۔ بہار میں بھی بی جے پی کی حالت انتہائی کمزور ہے جہاں جے ڈی یو کے ساتھ اس نے نشستوں کی تقسیم پر مفاہمت تو کرلی ہے لیکن اس کی دوسری حلیف جماعتیں اس تقسیم سے ناراض ہیں اور اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتی جا رہی ہیں۔ ان میںمرکزی وزیروں کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ یہاں اس آپسی رسہ کشی کا بی جے پی اور جے ڈی یو کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں راشٹریہ جنتادل کی حالت مستحکم ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ جو سروے ریاستی اسمبلی انتخابات کے بعد سامنے آ رہے ان میں راجستھان کانگریس اقتدار کی ریاست بن رہی ہے ۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی کانگریس کے اقتدار کے امکانات واضح دکھائی دے رہے ہیں۔تلنگانہ میں بھی کانگریس کی حالت مستحکم ہوئی ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کو جہاںاپنی حالت میں کمزوری کا احساس ہو رہا ہے وہیں اس کو کانگریس کی مستحکم ہوتی حالت بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بطور خاص بی جے پی نے ان ریاستوں کو نشانہ بنانے کے منصوبہ پر عمل شروع کردیا ہے جہاںاپوزیشن جماعتوںکی حکومتیں ہیں اور یہاں بی جے پی اپنا حلقہ اثر پیدا کرنا چاہتی ہے ۔
ویسے بھی بنگال میں بی جے پی کی حالت مستحکم نہیں ہے ۔ اس نے اب تک کئی منصوبوں پر یہاں عمل کیا ہے اور ان کے ذریعہ سیاسی طور پر اپنے قدم جمانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کوششوں میں اب تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ ریاست میں بی جے پی نے کئی واقعات کا استحصال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کی اور کچھ وقت تک اسے ان منصوبوں سے کامیابی ملنے کی امید بھی پیدا ہوئی تھی لیکن ان میں وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ ریاست میں ممتابنرجی کی حکومت ان عناصر کی سرکوبی موثر انداز میں کر رہی ہے جو فرقہ پرستی کے ذریعہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی کو سر ابھارنے سے روکنے میں ممتابنرجی نے سخت گیر اقدامات کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے بھی ممتابنرجی پوری طرح سے بی جے پی کے ساتھ لڑ رہی ہیں اور ہر محاذ پر بی جے پی کی مخالفت کی جار ہی ہے ۔ نوٹ بندی سے صدارتی انتخاب ہو کہ نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب ہو یا پھر مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہو ‘ ہر مسئلہ پر ممتابنرجی کی پارٹی نے بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ممتابنرجی کے وجود کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ محسوس کر رہی ہے ۔ وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے منصوبے بناتی جا رہی ہے اور ان پر عمل آوری کرنا چاہتی ہے ۔
اب بی جے پی صدر امیت شاہ ایک رتھ یاترا بنگال میںمنظم کرنا چاہتے ہیں اور اس یاترا کے ذریعہ ریاست کے حالات میں فرقہ پرستی کا زہر گھولا جاسکتا ہے ۔ اسی وجہ سے ممتا بنرجی نے رتھ یاترا کی اجازت نہیں دی ۔ بی جے پی اس کے خلاف عدالت سے رجوع ہوئی ۔ عدالت نے بھی بی جے پی کو حالات کے بگڑنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ریلی کی اجازت نہیں دی ۔ اب بی جے پی اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرچکی ہے ۔ اس طرح سے بی جے پی پوری طرح ظاہر کر رہی ہے کہ کہ وہ کسی بھی قیمت پر بنگال کی فضا کو مکدر کرنا چاہتی ہے اور اس کا مقصد صرف سیاسی مفادات کی تکمیل کرنا ہے ۔ ریاست میں اور ملک بھر میںسکیولر طاقتوں کو بی جے پی کے ان عزائم کو محسوس کرنے اور ان کو ناکام بنانے کیلئے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ سکیولر طاقتوں کو ممتابنرجی کی تائید میں آگے آنا چاہئے ۔