بغیر انسولین کے ذیابیطس کی دوا کی تیاری

دوسری و آخری قسط
انسانی جسم میں ایک پیپٹائڈ ہارمون ہوتا ہے جسے جی ایل پی ون کہتے ہیں۔ اس سے انسولین کے افراز میں اسی وقت اضافہ ہوتا ہے جبکہ خون میں گلوکوز کی سطح بلند ہوجاتی ہے ۔ اس طرح یہ موثر انداز میں ہائپو گلیسیمیا کے صدمہ کا خاتمہ کرتا ہے ۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جی ایل پی ون کا اثر وزن میں کمی کی تحریک دیتا ہے ۔ یہ ہارمون زمرہ دوم کی ذیابیطس کے علاج میں انقلابی تبدیلی لاسکتا ہے ۔ نئی دوا کی تیاری سے پہلے اس کی طبی جانچ کے لئے انھوں نے کہا کہ جی ایل پی ون انتہائی مختصر مدتی ہوتا ہے ، اس کی عمر صرف 4 منٹ کی ہوتی ہے لیکن اس کا عدم استحکام مریضوں پر اس کے موثر استعمال کے قابل بناتا ہے ۔ رسالہ پیپٹائڈ سائنس میں شائع شدہ ایک تحقیق کے بموجب ڈی اور ڈینارچی نے جی ایل ایف کی ایک حامی دوا کا نظریہ پیش کیا تھا ۔ یہ ایک ایسا ذریعہ تھا جو کارروائی میں وقت پیدا کرسکتا تھا ۔ ان کی تحقیق کے نتیجہ میں پیپٹائڈ کے عمل میں وقفہ پیدا کرنے والے کئی متبادل طریقوں کا انکشاف ہوا ۔ جس کے فارمولے روزانہ ایک بار سے لے کر ہفتہ میں ایک بار تک پھیل ہوئے تھے ۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ یہ مریضوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتے تھے ۔ کیونکہ ہمیں ایسے کئی متبادل طریقے دستیاب ہوسکتے تھے جن میں ہفتہ میں صرف ایک بار دوا استعمال کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی جبکہ موجودہ دوائیں ہر کھانے کے بعد استعمال کرنا ضروری تھا ۔ دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ میں سے ایک سونومزمدار نے کہاکہ جی ایل ایف ۔ I کی ایجاد ایک ایسی حامی دوا کی ایجاد تھی جو مریض دوست تھی ۔ ذیابیطس کے مریضوں کے علاج کا طریقہ تھا ۔ یہ ایک انتہائی نمایاں کارنامہ تھا جو ممکن ہے کہ مٹاپے بلکہ رعشہ و نسیان کے مرض کے خلاف جنگ میں بھی کامیاب ثابت ہوسکتا تھا ۔ ہندوستان میں جہاں مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، یہ ایک کامیاب دریافت ہے ۔
بین الاقوامی وفاق برائے ذیابیطس کے بموجب ہر پانچ افراد میں سے ایک فرد مٹاپے کی کسی نہ کسی نوعیت کا شکار ہے ۔ ایسے افراد کے قلب یا دماغ پر حملہ کا خطرہ تین گنا اور بالغ ہوجانے پر ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ پانچ گنا زیادہ ہے ۔ ایسے افراد کے لئے جو فی الحال اس مرض میں مبتلا نہیں ہیں ، انڈیا یونیورسٹی کے محققین کے بموجب ٹیکنالوجی کارپوریشن نے یہ دوا ان مریضوں پر آزمائی جو عالمگیر سطح پر یہ دوا پیش کرنے سے پہلے اس کی خود پر آزمائش کے لئے راضی تھے ۔ امریکی پیپٹائڈ سوسائٹی نے اس دوا کے موجد کو ایوارڈ سے نوازا ۔ اس نے کہاکہ اسے اُمید ہے کہ یہ دوا لازمی طورپر لوگوں کی مدد کرے گی اور برسوں کی سخت محنت اور تحقیق کا پھل ضرور ملے گا ۔