بعثت محمدیؐ سے پہلے کا دور …خزاں کا دور

سیداقبال حسن رضوی
چھٹی صدی عیسوی مسیحی دنیا : انبیائی دعوت دب چکی تھی۔ رومی اور ایرانی مشرق و مغرب کی قیادت کے اجارہ دار بنے ہوئے تھے اور ہر قسم کے فساد کے ذمہ دار تھے ۔ بادشاہ اور حکام نشۂ سلطنت میں سرشار تھے اور خواہشات نفس کی تسکین کے سوا کوئی مشغلہ نہ تھا ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسی دینی غفلت و خودفراموشی ، اجتماعی بدنظمی و انتشار اور اخلاقی تنزل و زوال رونما تھا ،محسوس ہوتا تھاکہ شر و فساد میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے تھے ۔
رومی سلطنت میں مذہبی خانہ جنگی : مذہب سے متعلق مباحث شروع ہوئے اور بے نتیجہ اختلافات نے قوم کو اُلجھادیا۔ مدارس ، کلیسا اور مکانات حریف کیمپ بن گئے ۔ پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ۔ بحث کیا تھی ؟ حضرت مسیحؑ کی فطرت کیا ہے ؟ اس میں الٰہی اور بشری جز کا Ratio کیا ہے ؟ فطرت مرکب ہے کا عقیدہ سرکاری تھا اور اس کی مخالفت پر بدترین وحشیانہ سزائیں دی گئیں ۔ (Historian’s History Of the World P-175)
یورپ : رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے’’پانچ صدی سے لیکر دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی اور یہ تاریکی تدریجاً زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی ۔ اٹلی اور فرانس میں تباہی طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور دورہ تھا ۔
(The Making of Huminity)
یہود : یورپ ، ایشیاء اور افریقہ میں بسنے والے یہود کے پاس دین کا بڑا سرمایہ تھا لیکن یہ بے وزن تھے ۔ یہ ظلم و استبداد ، سزا و جلاوطنی اور مصائب و مشقت کا ہدف بنے رہے ۔ پھر قومی غرور، نسبی تکبر ، سودی لین دین ،دغابازی ، نفاق ،مفت خوری ، حرام خوری ، راہ حق سے لوگوں کو روکنا ان کا قومی کردار تھا ۔ چھٹی صدی کے آخر میں یہود و نصاریٰ کی کشمکش عروج پر پہنچ گئی ۔ ۶۱۰؁ء میں یہود نے انطاکیہ میں عیسائیوں کے خلاف بلوہ کیا۔ بادشاہ Phocas نے فوجی افسر Bonosos کو سرکوبی کیلئے بھیجا ۔ اس نے ہزاروں یہودیوں کو تلوار سے ، سینکڑوں کو دریا میں غرق کرکے ، آگ میں جلاکر اور درندوں کے سامنے ڈال کر ہلاک کردیا۔ ۶۱۵؁ ء میں ایرانیوں نے شام کو فتح کیا تو یہود کے مشورے پر خسرو نے عیسائیوں پر وحشیانہ مظالم کیا ۔ ۶۳۰؁ء میں ایرانیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ہرقل نے یہودیوں سے سخت انتقام لیا اور ان کا قتل عام کیا۔
ایران : بدترین قسم کی شہوانیت میں ڈوبا ہوا تھا ۔ مزدک نے اعلان کیا کہ تمام عورتیں سب کیلئے حلال ہیں ۔
بدھ مت : گوتم بدھ کے مجسمے بنائے ۔ بدھ کی اصل تعلیمات کو فراموش کیا ۔
ہندوستان : وید میں دیوتاؤں کی تعداد ۳۳ تھی ۔ چھٹی صدی میں ۳۳ کروڑ ہوگئی ۔ مندروں کے محافظ بداخلاقی کا سرچشمہ تھے ۔ ایک مذہبی فرقہ کے مرد برہنہ عورتوں کی اور عورتیں برہنہ مردوں کی پرستش کرتے تھے ۔ (دیانند سرسوتی ص ۔ ۳۴۴)
عرب : فصاحت و بلاغت ، آزادی و خودداری اور امانت داری میں ضرب المثل تھے لیکن انبیائی تعلیمات سے دوری نے اخلاقی زوال کا شکار کردیا تھا ۔ بت پرستی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بعثت محمدیﷺ : انسانیت پر نزع طاری تھی عین وقت پر محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث کیا گیا ۔ آپ ؐ نے قولو لاالہٰ الااﷲ کا نعرہ بلند کیا ۔ صحابہ کی ایمانی تربیت کی ۔ ایسے افراد تیار کئے جوکہ امانت و دیانت ، بے نظیر شجاعت ، مکمل سپردگی اور صحیح معرفت کے حامل تھے ۔ ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو ذمہ دار معاشرہ تھا اور صاحب ضمیر افراد اس کا حصہ تھے جن میں حمیت ، محبت و جانثاری اور اطاعت و تابعداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ کوئی عادل حاکم ، کوئی امانت دار خازن ، کوئی منصف قاضی ، کوئی عبادت گذار قائد اور کوئی پرہیزگار فوجی تھا ۔ حقیقت میں محمد ﷺ نے نبوت کی کنجی انسانی فطرت کے قفل پر رکھ دی تھی بس وہ کُھل گیااور اس کے تمام خزانے و عجائبات ، طاقتیں اور کمالات دنیا کے سامنے آئے ۔ آپؐ نے جاہلیت کی شہ رگ کاٹ دی اور انسانیت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ۔
مسلمانوں کے تنزل کا آغاز : جب اُمت میں جہاد و اجتہاد کا فقدان ہوا ، ملوکیت آئی تب اُمت زوال کا شکار ہوئی اور قبلۂ اول مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا ۔ پھر اﷲ نے نورالدین زنگی و سلطان صلاح الدین ایوبی کو اُٹھایا جنھوں نے مسجد اقصیٰ کو آزاد کرایا ، میدان قیادت میں عثمانی ترکوں کی آمد ہوئی ، پھر وہ دور آیا جب یورپ کی صنعتی ترقی ہوئی اور ترکوں کا زوال ہوا ۔
موجودہ صورتحال: آج مختلف ممالک سے اُمت کی آزمائشوں کی خبریں آرہی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت مسلمہ متحد ہو اور منصوبہ بند انداز میں دعوت و جدوجہد کا کام کریں تو پھر خزاں کا یہ دور ختم ہوسکتاہے اور بہار کے دن دوبارہ آسکتے ہیں۔ اﷲ قوموں کی حالت اسی وقت بدلتا ہے جب قومیں اس کیلئے کوشش کریں۔ اﷲ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے۔ آمین