بریگزٹ مسئلہ اور وزیراعظم تھریسامے

خدا حافظ کہا جس نے سبھی آدابِ گلشن کو
ہمارا پاسباں نکلا جلایا جو نشیمن کو
بریگزٹ مسئلہ اور وزیراعظم تھریسامے
وزیراعظم برطانیہ تھریسامے نے بریگزٹ معاہدہ کے تحت معیشت کے تحفظ کیلئے سخت محنت سے کام نہیں لیا جس کے نتیجہ میں انہیں اپنے ملک کی طرزحکمرانی کے احترام میں استعفیٰ دینے کا اعلان کرنا پڑا۔ 7 جون کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے علحدہ ہونے والی تھریسامے اپنے اس اقدام کے ذریعہ برطانیہ کو خاص فائدہ بھی نہیں پہنچائیں گی۔ انہوں نے جس طرح کسی منصوبہ کے بغیر بریگزٹ کا فیصلہ کیا اسی طرح برطانیہ کیلئے بھی ان کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بریگزٹ پر جاری جنگ نے برطانیہ کے سیاسی نظام کو ہی درہم برہم کر رکھا ہے۔ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے کے معاملے میں اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے خود پر پڑنے والے دباؤ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر اپنی شدید پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے بریگزٹ معاہدے کو تسلیم نہ کروانے کا اعتراف کیا۔ جب انہوں نے برطانیہ کی باگ ڈور سنبھالی تو ان کا عزم تھا کہ وہ اپنی حکمرانی کے ذریعہ برطانیہ کے صرف چند لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچائیں گی بلکہ ان کی کوشش سب کے فائدے کیلئے ہوگی لیکن وہ بریگزٹ کے بارے میں اپنی کوششوں کو کامیاب نہیں بنا سکیں۔ برطانیہ میں اب آئندہ ہفتہ سے نئے وزیراعظم کے انتخاب کا عمل شروع ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہیکہ برطانیہ کا آنے والا نیا وزیراعظم بریگزٹ پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن برطانوی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کو یقین ہیکہ بریگزٹ کا فیصلہ برطانیہ کیلئے ایک مستقل نہ سہی کچھ وقت کیلئے نازک کیفیت سے دوچار کردے گا۔ برطانیہ میں حکمراں پارٹی اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہونے سے تھریسامے کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ وزیراعظم کی حیثیت سے تھریسامے کی کارکردگی کی ان کے مخالفین بھی ستائش کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے گذشتہ چند برسوں کے دوران کئی افراد کی ملازمتیں بچانے میں ان کی مدد کی ہے لیکن وہ برطانوی سیاسی کشیدہ صورتحال سے بیزار ہوچکی تھیں۔ کسی بھی ملک میں سیاسی سرگرمیاں کشیدگی کا شکار بنا دی جائیں تو کسی بھی کام میں پیشرفت ہونا مشکل ہوتا ہے۔ برطانیہ کی حالیہ سیاسی سرگرمیاں کشیدہ ہونے کے باوجود بعض امور میں بہتر تال میل کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔ بریگزٹ کے حامیوں اور کنزرویٹو قانون سازوں کو برطانیہ کیلئے ایک حقیقی قیادت لانے کیلئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ برطانوی سیاست کو بے سمتی کا شکار ہونے سے روکنے کیلئے ضروری ہیکہ یوروپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے اصول و قواعد کو فوری بہتر بنانے کی خواہش کی جانی چاہئے۔ برطانیہ نے جب جون 2016ء کو ایک ریفرنڈم کے ذریعہ یوروپی یونین سے علحدگی کا فیصلہ کیا تھا تو اس پر کئی گوشوں سے تنقیدیں بھی ہوئی تھیں۔ ایسی صورتحال میں وزیراعظم کی حیثیت سے تھریسامے نے معاہدہ کو 3 مرتبہ پیش کیا اور تینوں مرتبہ یہ معاہدہ مسترد کردیا گیا۔ برطانیہ کو ایک تاریخی بحران کی جانب ڈھکیلنے والے بریگزٹ فیصلے پر آئندہ چند برسوں میں جو کچھ پیشرفت ہوگی وہ برطانیہ کے حق میں کیا کروٹ لے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر وزیراعظم تھریسامے نے یوروپی یونین کے 27 ممالک کے سامنے بریگزٹ کے بارے میں ٹھوس قدم اٹھنے کے بجائے استعفیٰ کو ہی ترجیح دی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے برطانوی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ اگر بریگزٹ کے تعلق سے معاہدہ پر بات چیت کرنے کیلئے مزید مہلت دی جاتی تو کچھ راستہ نکل سکتا تھا لیکن ایسی مہلت دینے سے گریز کیا گیا کیونکہ بعض کا کہنا تھا کہ مہلت دینے سے یوروپی یونین کو بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک طرف برطانوی پارلیمنٹ میں عدم اتفاق کا پیدا ہونا دوسری طرف یوروپی یونین کا سخت موقف اس مسئلہ کو طول حاصل ہوا جس کے بعد کی صورتحال وزیراعظم برطانیہ کو کس حد تک توڑ کر رکھ دے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔
پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی
بی جے پی کی قیادت نے حالیہ لوک سبھا انتخابات کیلئے چلائی گئی مہم میں خود اپنے ہندوتوا نظریہ کو الگ رکھا اور صرف ترقی اور شفاف حکمرانی دینے کا نعرہ لگا کر ووٹ مانگے لیکن درپردہ طور پر بی جے پی آر ایس ایس کے کیڈر کو مخالف مسلم مہم میں مصروف رکھ کر ہندو ووٹ مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 4 کروڑ ہے لیکن بی جے پی نے یہاں سے ایک بھی مسلم کو امیدوار نہیں بنایا۔ اس طرح ہر آنے والے انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندگی صفر کردی جائے گی۔ اس وقت پارلیمنٹ میں نومنتخب مسلم نمائندوںکی تعداد بھی گنتی کی ہے۔ 30 کروڑ مسلم آبادی والے اس ملک میں اگر پارلیمنٹ کے اندر مسلم نمائندوں کی تعداد گھٹ رہی ہے تو یہ ایک بڑا سانحہ اور المیہ ہے۔ ہندو قوم پرست نظریہ کو فروغ دینے میں کامیاب بی جے پی نے اس مرتبہ اپنے ووٹ بینک کو مزید مضبوط بنا لیا ہے۔ لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد میں کمی کیلئے وہ تمام سیکولر پارٹیاں ذمہ دار ہیں جو مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کا اعلان کرتی ہیں۔ مسلم اکثریتی والے علاقوں میں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا گی۔ اس سے ہٹ کر خود مسلمانوں کے اندر قیادت کی صلاحیتوں کا فقدان دیکھا جارہا ہے۔ زمانے کے ساتھ خود کو تبدیل کرنے اور عوامی خدمت کے جذبہ کے ساتھ ملک کے دستور و جمہوری قانون اور تمام انتظامی امور سے واقفیت رکھنے کی کوشش مسلمانوں میں بہت ہی کم دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجہ میں آج سرکاری محکموں سے لیکر سیاسی میدان تک مسلم نمائندگی سے خالی ہیں۔ اس لئے آج 17 ویں لوک سبھا میں صرف 27 مسلم ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے جبکہ بی جے پی کے 303 نومنتخب ارکان پارلیمنٹ ہیں ایک بھی مسلم شامل نہیں کیونکہ اس نے کسی مسلم کو امیدوار ہی نہیں بنایا۔ این ڈی اے کی حلیف ایل جے پی نے ایک مسلم امیدوار محبوب علی قیصر کو ٹکٹ دیا تھا جنہوں نے بہار کے کھیگرا سے بمشکل کامیابی حاصل کی۔