بحر روم کی غذا سے ذیابیطس کے خلاف تحفظ

 

بحرروم کے علاقہ کے انداز کی غذائیں جن میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار کم ہوتی ہے زمرہ دوم کی ذیابیطس کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہیں۔ ایک نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اٹلی کے ماریونیگری ادارہ برائے ادویاتی تحقیق کی محقق ، کارلولاواچیا اور ان کے ساتھیوں نے یونان کے 22295 مریضوں کے مشاہدہ کیا جنھوں نے اس تحقیق میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد گیارہ سال تک زمرہ دوم کی ذیابیطس کے 2330 مریضوں کی اطلاع ملی ۔ محققین نے دس نکاتی بحرروم کی غذائیں تجویز کی تھیں اور ان غذاؤں میں گلائسیمک لوڈیا کاربوہائیڈریٹس کی مقدار کی پیمائش کے لئے معیار مقرر کئے تھے ۔ جن افراد کی غذاؤں میں 6 فیصد سے زیادہ کاربوہائیڈریٹس شامل تھے ان کے خطرہ دوم کی ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ ان افراد کی بنسبت زیادہ تھا جن کی غذاؤں میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار 3 فیصد یا اس سے کم تھی۔ جن کی غذاؤں میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار اعظم ترین تھی ان کے ذیابیطس کے مریض ہونے کا خطرہ ان افراد کی بنسبت جن کی غذاوں میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار اقل ترین تھی 21 فیصد زیادہ تھا ۔ محققین کے بموجب بلند ایم ڈی ایس کے ساتھ دستیاب کاربوہائیڈریٹس کی کم مقدار سے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ 20 فیصد کم تھا بنسبت ان افراد کے جن کی غذا میں ایم ڈی ایس پست اور جی ایل بلند تھا ۔ وزن پر قابو پانے کی صلاحیت کے اعتبار سے بحرروم کی غذاؤں کی تاثیر ہنوز متنازعہ ہے۔
بحرروم کے ممالک کے بیشتر مطالعہ جات میں بحرروم کی غذاؤں کی پابندی کا حد سے زیادہ وزن سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ بحرروم کے علاقہ کی غذاؤں کے استعمال کے ذریعہ ذیابیطس کے انسداد کے طریقہ کا وزن پر قابو پانے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق بحرروم کی غذاؤں کی دیگر کئی خصوصیات سے ہے ۔ محققین نے ایک خصوصیت کی نشاندہی کی کہ بحر روم کے علاقہ کی غذاؤں میں زیتون کا تیل زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔ یہ تیل واحد غیرمرتکز چکنائی اور چکنائی سے بھرپور تیزابوں کا توازن برقرار رکھتا ہے ۔ غذائی چکنائی اور ذیابیطس کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ مرتکز اور ٹھوس چکنائی کی جگہ غیرمرتکز چکنائی کے انسولین کی حساسیت پر مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ امکان ہے کہ اسی کے نتیجہ میں زمرہ دوم کی ذیابیطس لاحق ہونے کے خطرات میں کمی پیدا ہوتی ہے ۔ تاہم قلب سے مربوط شریانوں کے امراض کے لحاظ سے مخدوش مریضوں کے مشاہدہ سے اور ان میں سے چند پر آزمائش سے جنھیں زیتون کے تیل یا دیگر تلن سے حاصل کئے جانے والے تیل سے پاک غذائیں استعمال کروائی گئی تھیں اور ان کا تقابل ایسے افراد سے کیا گیا جنھیں کم چکنائی والی غذائیں استعمال کروائی گئی تھیں، پتہ چلا کہ ان دونوں کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ مساوی تھا۔ بلند جی ایل والی غذا کے نتیجہ میں خون کے گلوکوز اور انسولین کی سطح میں تیز رفتار اضافہ ہوتا ہے۔ کہنہ اضافہ شدہ انسولین کی طلب کے نتیجہ میں آخرکار پتہ کا بیٹا خلیہ ناکارہ ہوجاتا ہے ۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گلوکوز کی برداشت بے حس ہوجاتی ہے اور انسولین کی مزاحمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہ ذیابیطس لاحق ہونے کا اشارہ ہوتا ہے ۔ غذا میں جی ایل کی زیادہ مقدار کا گلائسیمک کنٹرول سے غیرمفید تعلق ہوتا ہے۔ محققین کے بموجب کم جی ایل والی غذا جو روایتی بحر روم کی غذا کے اصولوں کی پابندی کرتی ہے ، زمرہ دوم کی ذیابیطس لاحق ہونے کے امکانات میں کمی کرتی ہے ۔ یہ تحقیق رسالہ ’’ڈایاپیٹولوجیا‘‘ میں شائع ہوئی ہے ۔