ببلومیاں کے محاورے

ببلو ایک سیدھا سادہ لڑکا ہے ۔ آپ اسے اللہ میاں کی گائے کہہ سکتے ہیں ۔ جو بات بھی سنتا ہے یا پڑھتا ہے ، اسے صحیح سمجھتا ہے ، چاہے وہ سفید جھوٹ ہو ، تشبیہ ہو یا استعارہ ہو ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ کسی محاورے کی بھی انہیں بالکل سمجھ نہیں ۔ کوئی محاورہ کہے تو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں ، کوئی مذاق کرے تو سنجیدہ ہوجاتے ہیں ، کبھی کبھار خود بھی بے موقع محاورے بولتے ہیں اور محاوروں سے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی مشکل میں پھنسالیتے ہیں ۔ یعنی ان جیسا بھولا بھالا کوئی دوسرا نہ ہوگا ۔ ایک روز کسی نے کہا ’’ اسے آتا دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ‘‘ ۔ یہ سن کر بڑی سنجیدگی سے پوچھ بیٹھے ’’ آپ کے ہاتھوں پر کتنے طوطے بیٹھے ہوئے تھے ؟ ‘‘ میں نے ایک روز کہا ’’ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے ۔ ‘‘ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکا خلیل رہتا ہے ۔ ببلو میاں اس کے پاس گئے اور پوچھا ’’ کیا واقعی آپ پہلے فاختہ اُڑایا کرتے تھے ؟ ‘‘ کسی نے کہا ’ میاں ، یہاں تمہاری دال نہیں گلے گی ۔ ‘‘ ببلو میاں جھٹ بولے ’’ میں نے دال پکنے چڑھائی ہی نہیں ۔ ‘‘ ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گال پر لال رنگ کا پینٹ کئے ہوئے ہے اور دوسرے گال پر پیلے رنگ کا ، ہم نے پوچھا ’’ بھئی ! یہ کیا ہوا آپ کو ؟ ‘‘ جواب دیا ۔ ’’ دیکھ نہیں رہے ، میں غصے سے لال پیلا ہورہا ہوں ۔ ‘‘ ایک دن ببلو اور میں ایک باغ کے قریب سے گزر رہے تھے ۔ درختوں پر خوشبو دار آم لگے ہوئے تھے ۔ ان کی مزیدار خوشبو سے دل چاہا کہ آم کھاوں ، اس لئے میں نے دو چار آم توڑ لئے ۔ آدھے خود کھائے اور آدھے ببلو کو کھلادیئے اور ساتھ ہی اسے تاکید کی کہ کسی کو بتانا نہیں کہ ہم نے باغ سے آم توڑ کر کھائے ہیں ۔ ذرا آگے بڑھے تو باغ کا رکھوالا نظر آیا ۔ پوچھا ’’ بڑے خوش خوش دکھائی دے رہے ہو۔ بات کیا ہے ؟ ‘‘ ببلو بولا ’’ میں بھلا کیوں بتاوں کہ ہم نے اس بات سے کتنے آم توڑ کر کھائے ہیں ، ہمیں آم کھانے سے مطلب تھا گٹھلیاں گننے سے نہیں ۔ ‘‘ یہ سننا تھا کہ باغ کا رکھولا طیش میں آگیا اور یوں ببلو میاں کی وجہ سے ہم نے آم کھانے کے بعد ڈنڈے بھی کھائے ۔ اس لئے ہم یہی کہیں گے کہ سب ببلو میاں جیسے نادان دوست سے بچ کر رہیں !
٭٭٭٭٭