بارسلونا حملے اور عالمی طاقتیں

ایک قطرہ تھا میں مگر اس نے
اک سمندر بنا دیا مجھکو
بارسلونا حملے اور عالمی طاقتیں
دہشت گردی کے خلاف عالمی طاقتوں کا اتحاد اپنے مقصد میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ اسپین کے شہر بارسلونا میں ایک ہجوم پر گاڑی چڑھادینے کے واقعہ میں 15 سے زائد اموات ہوئیں۔ اس کے بعد جرمنی اور فن لینڈ میں چاقوزنی میں دو افراد مارے گئے۔ لندن میں اس طرح کے دہشت گرد حملوں اور فرانس کے شہر پیرس میں ہجوم کے اندر موٹرگاڑی گھسانے کے واقعات کے بعد عالمی طاقتوں نے دہشت گردی کو کچلنے کے جامع منصوبہ پر عمل کا عہد کیا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہیکہ یہ دہشت گرد تنظیمیں عالمی طاقتوں کے منصوبہ سے زیادہ طاقتور عزم رکھتی ہیں۔ اس کی وجوہات بہت کچھ ہوسکتی ہیں۔ ساری دنیا میں ایک خاص قوم کو نشانہ بنانے کی پالیسیوں نے عالمی طاقتوں کو خطرناک ماحول کی جانب ڈھکیل دیا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ عالمی رہنماؤں نے ہر دہشت گرد واقعہ کے بعد مشترکہ کوششوں کا عہد کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ سوال یہ ہیکہ یہ عالمی طاقتیں ان حملوں کی وجوہات کا پتہ چلا کر ان واقعات کی روک تھام کیلئے جامع منصوبہ کیوں نہیں بناتیں۔ دہشت گرد عناصر کے خلاف صرف متحد ہونے کا اعلان کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا۔ انسانی جانوں کے اتلاف والے عوامل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے حملے گھناؤنے جرم متصور ہوتے ہیں۔ عمداً موٹر گاڑی کو عوام کے ہجوم میں چڑھادینے کا دہشت گردانہ رجحان تشویشناک ہے۔ دہشت گرد تنظیموں نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی نئی ترکیب کو اختیار کیا ہے تو اس پر جوابی کارروائی میں ناکامی کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ اسپین کے سب سے اہم سیاحتی مقام بارسلونا میں بیرونی سیاحوں کی آمد کو متاثر کرنے کیلئے یہ حملے کئے گئے ہیں۔ حملہ آوروں کا مقصد مغربی دنیا کے سیاحتی شعبہ کے ذریعہ ہونے والی آمدنی کو نقصان سے دوچار کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ اسپین کو سیاحت کا تیسرا بڑا مرکز مانا جاتا ہے۔ اب دہشت گرد حملوں کے بعد اسپین کے مقامی عوام نے سیاحوں کے خلاف مظاہرے شروع کرکے اس سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کے اثرات اور دوسری طرف بیرونی سیاحوں کو روکنے کی کوشش نے کئی ملکوں میں بحران کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ہی مشکلات کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ شام، عراق اور دیگر عرب و مسلم ملکوں میں مغربی کارروائیوں سے ہر کوئی واقف ہے۔ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اب تک لندن، نیس پیرس، برلن، اسٹاک ہوم کے بعد جواب میں اسی طرح کے حملے کئے ہیں۔ داعش یا دولت اسلامیہ سے نبردآزما ملکوں کیلئے ایسے دہشت گرد حملے تشویش کا باعث ہیں تو انہیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ لندن یا پیرس حملوں کے بعد بھی ان ملکوں یا دیگر ممالک نے سیکوریٹی صورتحال کو ڈھیل دیدی ہے تو پھر عالمی انٹلیجنس ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ خودکش حملہ آور ہوں یا ٹرک کے ذریعہ ہجوم میں حملہ کرنے والے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کارروائیاں ایک منظم منصوبہ کا حصہ ہوتی ہیں۔ نفرت سے نفرت کو حل کرنے کی عالمی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ دہشت گرد اگر اس طرح اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے رہیں گے تو پھر ایک دن یہ گروپ عالمی طاقتوں کو شکست دینے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ برطانوی شہر مانچسٹر میں امریکی گلوکارہ کے کنسرٹ کے موقع پر ہونے والے دھماکے کے بعد امریکہ اور برطانیہ کے بشمول تمام مغربی ممالک نے بڑے مضبوط عزم کے ساتھ دہشت گردی کو کچلنے کا عہد کیا تھا۔ اس کے باوجود آج یوروپ دہشت گردی کے بڑے واقعات کی لپیٹ میں ہے تو یہ ان ممالک کے لئے تشویش کی بات ہے۔ یوروپ کے اہم ملک فرانس کی پالیسیوں نے شدت پسند تنظیموں کو مشتعل کرنے کا کام کیا ہے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً ہر ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ تمام اقدام ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے علاوہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ القاعدہ کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے ملکوں کو نئی دہشت گرد تنظیموں کا سامنا ہے۔
تلنگانہ میں فرقہ پرستوں کے بڑھتے قدم
بی جے پی کی مرکزی قیادت نے تلنگانہ کو ان اہم ریاستوں میں سے ایک ریاست کے طور پر نشاندہی کرلی ہے جہاں جنوبی ہند میں اس کے اقتدار پر آنے کے امکانات قوی ہوتے جارہے ہیں۔ تلنگانہ میں پارٹی قائدین اور ورکرس میں تحریک پیدا کرنے کی غرض سے ہی پارٹی صدر امیت شاہ نے مئی میں 3 دن کیلئے تلنگانہ کا دورہ کیا تھا۔ ریاست میں اب 17 ستمبر کو سقوط حیدرآباد کے واقعہ کو تلنگانہ لبریشن ڈے کے طور پر منانے کی ضد میں بی جے پی نے مرکزی قائدین کو تلنگانہ میں مصروف رکھ دیا ہے۔ مرکزی مملکتی وزیرداخلہ ہنس راج اہیر نے تلنگانہ کا دورہ کرتے ہوئے 17 ستمبر کے پروگرام کو قطعیت دی ہے۔ ٹی آر ایس کے موافق مرکز موقف نے بی جے پی کو اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ تلنگانہ لبریشن ڈے میں شرکت کرنے کیلئے مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی حیدرآباد کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ تلنگانہ میں بی جے پی کی سرگرمیاں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہیں۔ یوم آزادی کے موقع پر نظام آباد کے ایک موضع میں سرکاری کالج کے پرنسپل کو جوتے اتارے بغیر پرچم کشائی انجام دینے کے خلاف اے بی وی پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے مسلم پرنسپل کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ واقعہ بظاہر ایک ٹاؤن کی حد تک محدود سمجھا جاسکتا ہے لیکن اس واقعہ کی سنگینی اور بی جے پی کے ناپاک مقاصد کا ابھی سے اندازہ کرلیا جائے تو سیکولر حکومت کو ریاست تلنگانہ میں فرقہ پرستوں کے حوصلے پست کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ بی جے پی نے ٹی آر ایس حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کیا ہے کہ وہ 17 ستمبر کو لبریشن ڈے منانے کا سرکاری طور پر اہتمام کرے۔ ریاست میں نفرت انگیز کارروائیوں کے ذریعہ اقتدار پر پہنچنے کی کوشش کرنے والی پارٹی کو ریاست تلنگانہ کے سیکولر عوام اس کے مقاصد میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ سیکولر پارٹیوں کو اس سلسلہ میں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔