بادشاہ شاہجہاں کا انصاف

یہ اس وقت کی بات ہے جس زمانے میں شاہ جہاں حکومت کیاکرتا تھا ۔ محل سے کچھ دور ایک چھوٹے سے مکان میں ایک بڑھیا اور اس کا پوتا رہتے تھے ۔ پوتے کا نام دلاور تھا اور اس کی عمر بارہ برس سے زیادہ نہیں تھی ۔ دلاور ایک افسر کے ہاں ملازم تھا ۔ اس کا کام یہ تھا کہ جب افسر گھوڑے پر سوار ہوکر گھر سے باہر نکلتا تھا تو یہ گھوڑے کے آگے آگے چلتا تھا اور جب افسر گھوڑے سے اترکر کہیں جاتا تھا تو وہ گھوڑے کی لگام پکڑکر اس وقت تک کھڑا رہتا تھا ۔ جب تک افسر واپس نہیں آجاتا تھا وہ افسر اسے تھوڑی سی تنخواہ دیتا تھا اور اس تنخواہ سے بڑھیا اور اس کے پوتے کا گذرارہ ہوجاتا تھا ۔ ایک مرتبہ تین مہینے گذر گئے اور افسر نے دلاور کو تنخواہ نہ دی ۔ بڑھیا اور دلاور کا اسی تنخواہ پر گذارہ ہوتا تھا ۔
جب یہی روپئے انہیں نہ ملے تو انہیں بڑی تکلیف ہوئی ۔ لوگوں کو بڑھیا سے بڑی ہمدردی تھی ۔ اس لئے وہ اس کی مدد کرنے لگے مگر کب تک ۔ بڑھیا نے خود بھی اس چیز کو پسند نہ کیا کہ لوگ اسے خیرات دیں ۔ اس لئے اس نے دلاور سے کہا ! تم اپنے مالک کے پاس جاؤ اور اپنی تنخواہ مانگو اور اسے یہ بھی بتاؤ کہ میرا اور میری دادی کا اسی روپئے پر گذر ہوتا ہے ۔ دلاور پہلے ہی دو تین بار افسر کے یہاں جاکر تنخواہ مانگ چکا تھا اور مایوس ہوکر لوٹ آیا تھا ۔ افسر نے ہر بار کسی نہ کسی طرح اسے ٹال دیا تھا اب جو اماں نے اسے وہاں جانے کیلئے کہا تو وہ جانے پر تیار نہ ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ افسر اس بار بھی اسے ٹال دے گا مگر اس نے یہ سوچا کہ اگر وہاں سے روپیہ نہیں آئے گا تو گھر کا خرچ کس طرح پورا ہوگا ۔ وہ چلنے پر آمادہ ہوگیا ۔ افسر نے اس کی بات سن کر کہا کہ تم کام ٹھیک طور پر نہیں کرتے اس لئے تمہیں تنخواہ بھی ٹھیک طور پر نہیں مل سکتی ۔ یہ بات سن کر دلاور کو بڑا دکھ ہوا مگر وہ کیا کرسکتا تھا اس کا مالک ایک افسر تھا اور اس کے سامنے بھلا وہ کیا تھا ؟ گھر آکر اس نے اپنی دادی کو یہ واقعہ سنایا تو وہ بولی دیکھو بیٹا ناامید ہونے کی کوئی بات نہیں ۔ تم یوں کرو کہ بادشاہ کے محل میں چلے جاؤ اور انہیں اپنی تکلیف کا حال سناؤ وہ ضرور ہماری مدد کریں گے ۔دلاور بورلا نہ بابا ! میں وہاں کبھی نہیں جاؤں گا ۔ بادشاہ سلامت اپنے افسر کی شکایت کیوں سنیں گے بھلا! الٹا وہ خفا ہوجائیں گے ۔

بڑھیا خاموش ہوگئی ۔ لیکن اس نے اپنے دل میں عہد کرلیا کہ وہ خود بادشاہ کی خدمت میں پہونچ کر یہ واقعہ سنائے گی کیونکہ وہ بڑے نیک اور مہربان ہیں ۔ دوسرے دن بڑھیا محل کی طرف روانہ ہوگئی ۔ اتفاق سے شاہجہاں بادشاہ محل سے باہر نکل رہے تھے ۔ بڑھیا جھٹ ان کے سامنے پہونچ گئی ۔ بادشاہ نے پوچھا کیا بات ہے اماں ! بڑھیا نے جو کچھ سوچ رکھا تھا ان کو بتادیا بادشاہ نے بڑھیا کی ساری بات بڑے صبر سے سنی اور بولے تم کل دوپہر کے وقت اپنے پوتے کو یہاں بھیج دینا ۔ میں معلوم کروں گا کہ بات اصل میں کیا ہے اور قصور کس کا ہے ! بڑھیا نے سلام کیا اور اپنے گھر کو لوٹ آئی ۔ گھر آکر اس نے دلاور کو بتایا کہ اسے دوسرے دن محل میں جانا ہے تاکہ بادشاہ افسر کے سامنے اس کی بات سن کر فیصلہ کریں ۔ دلاور دوسرے دن محل کے دروازے تک پہونچ گیا ۔ بادشاہ سلامت محل کے سامنے میدان میں کھڑے تھے اور وہ افسر بھی وہیں تھا ۔ بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلایا ۔ جب وہ وہاں پہونچ گیا تو انہوں نے افسر سے پوچھا ۔ یہ لڑکا تمہارا نوکر ہے اور کیا تم نے اسے تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی ؟ افسر بادشاہ کے سامنے جھوٹ کیونکر بول سکتا تھا ۔ اسے سچ مچ بتانا پڑا کہ اس نے لڑکے کو تین ماہ کی تنخواہ نہیں دی ۔ بادشاہ نے لڑکے کی طرف دیکھ کر کہا ، آؤ بیٹا اس گھوڑے پر سوار ہوجاؤ دلاور ڈرا کہ بادشاہ سلامت اسے یہ حکم دے رہے ہیں ۔ گھوڑا اس کے مالک کا ہے اور وہ اس گھوڑے پر کیسے بیٹھ سکتا ہے ۔

وہ وہیں کھڑا رہا بادشاہ نے دوبارہ کہا اور اپنے ایک نوکر کو حکم دیا کہ اسے گھوڑے پر سوار کردو ، خادم نے جھٹ دلاور کو گھوڑے پر بیٹھا دیا ۔ اب بادشاہ نے افسر سے کہا ۔ جس طرح یہ لڑکا تمہارے گھوڑے کے آگے آگے چلتا تھا اس طرح تم اس کے آگے آگے چلو اور سارے شہر کا چکر لگاکر واپس آؤ ! افسر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ کیا بادشاہ سلامت اسے ایسا حکم بھی دے سکتے ہیں ایسا تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ بادشاہ حکم دے چکے تھے اور اس حکم کو کسی طرح بھی ٹالا نہیں جاسکتا تھا ۔ گھوڑا چلنے لگا تو افسر کو مجبور ہو کر اس کے آگے آگے قدم اٹھانے پڑے ۔ اس وقت افسر کی حالت بڑی خراب تھی ۔ وہ اس طرح چل رہا تھا ماتھے سے پسینہ بہہ رہاتھا اور آنکھیں پوری طرح اٹھتی ہی نہ تھیں ۔ چاروں طرف لوگ یہ تماشہ دیکھ رہے تھے اور طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے ! خدا خدا کرکے شہر کا چکر ختم ہوا اور وہ محل کے پاس پہونچ گئے ۔ انہیں دیکھ کر بادشاہ سلامت محل سے باہر نکل آئے انہوں نے افسرسے کہا ۔ آج تمہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ اس قسم کی نوکری میں کیا تکلیف ہوتی ہے ۔ امید ہے آئندہ تم لڑکے کی تنخواہ کبھی نہیں روکو گے ۔ افسر نے معافی مانگی اور اسی وقت دلاور کو تنخواہ ادا کردی ۔