بادشاہ بابر کا بہترین طرز ِعمل…!!

پانی پت کے میدان میں تین جنگیں ہوئی تھیں۔ ان میں سے پہلی جنگ بابر بادشاہ اور ابراہیم لودھی کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ جنگ بڑی سخت تھی۔ دونوں بادشاہوں کی فوجیں بڑی بہادری سے لڑرہی تھیں اور ہر ایک کی کوشش یہ تھی کہ دوسرے پر فتح پالے۔ بابر بڑا بہادر سپاہی تھا، مگر ابراہیم لودھی بھی کچھ کم بہادر نہیں تھا۔ لڑائی ہوتی رہی اور آخر بابر کو فتح نصیب ہونے لگی۔ جس وقت بابر کی فوجیں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں اور ابراہیم لودھی کو شکست ہورہی تھی، ابراہیم لودھی اپنے سپاہیوں ہی کے درمیان کھڑا تھا۔ ایک افسر بھاگا بھاگا اُس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا… اے ہمارے سلطان! ہمارے سپاہیوں کو شکست ہورہی ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ آپ میدان سے نکل جائیں۔ آپ سلامت رہیں گے تو سپاہی پھر سے جمع ہوجائیں گے اور اگر خدا نخواستہ آپ ہی نہ رہیں تو مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنے گھوڑے سے اُترکر میرے گھوڑے پر بیٹھ جائیں۔ میں آپ کو یہاں سے دُور لے جاؤں گا۔ ابراہیم لودھی اپنے افسر کی بات سن کر کہنے لگا کہ تم نے مجھے بڑا غلط مشورہ دیا ہے۔ جب میرے دوست فوجی افسر اور سپاہی جنگ میں مررہے ہیں تو میرا زندہ رہنا بزدلی ہے۔ اب تو میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گا۔ شکست و فتح تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کو بزدلی کی زندگی قبول نہیں کرنی چاہئے۔ بہادری کی موت، بزدلی کی زندگی سے ہزار درجے بہتر ہے۔

یہ کہہ کر ابراہیم لودھی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور میدان کے اُس حصے میں پہنچ گیا، جہاں بڑی سخت لڑائی ہورہی تھی۔ کسی کو بھی معلوم نہ ہوسکا کہ سپاہیوں کے ساتھ خود سلطان لودھی بھی لڑرہا ہے اور زخم پہ زخم کھارہا ہے۔ آخرکار وہ گرپڑا اور اس طرح گرا کہ پھر نہ اُٹھ سکا اور اس دُنیا سے رخصت ہوگیا۔ بابر بادشاہ کو جب یہ سارا واقعہ معلوم ہوا تو اپنے دشمن کی بہادری پر عش عش کر اُٹھا۔ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا… بہادر ہو تو ایسا۔ اس نے اپنے چند افسروں کو فوراً بلایا اور ان سے کہا… دیکھو، ابراہیم لودھی کو ہم فوجی عزت و تکریم کے ساتھ دفن کریں گے۔ تم لوگ جاؤ اور اس کو پورے احترام کے ساتھ لے آؤ۔ بابر کے فوجی افسر یہ حکم سنتے ہی جنگ کے میدان میں پہنچ گئے اور جہاں انھوں نے ابراہیم لودھی کو آخری بار دیکھا تھا، وہاں اسے تلاش کرنے لگے۔ اور تو کئی سپاہی وہاں پڑے تھے، مگر ابراہیم لودھی کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ ابراہیم لودھی کے اپنے آدمی اس کو جنگ کے میدان سے لے گئے ہیں۔ اس لئے اس خیمے کی طرف چلے گئے جہاں اس کے فوجی افسر موجود تھے۔ اس جگہ جاکر انھوں نے بابر کا فرمان سنایا۔ وہ بولے…

ہم اپنے بادشاہ کے جسم کو خیمے میں نہیں لاسکے۔ جب لے آئیں گے تو اس کی اطلاع آپ لوگوں کو کردی جائے گی۔ بابر کے فوجی افسر لوٹ آئے اور جو کچھ انھوں نے سنا تھا، بادشاہ بابر کو سنادیا۔ بابر کچھ دیر چپ چاپ وہاں کھڑے رہے۔ اس کے بعد اپنے خیمے سے نکلے اور جلدی جلدی ایک طرف کو جانے لگے اور نظروں سے غائب ہوگئے۔ جب وہ چلے گئے تو فوجی افسروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انھوں نے بادشاہ کو جانے سے روکا کیوں نہیں تھا؟ وہ تنہا شاید ابراہیم لودھی کو تلاش کرنے چلے گئے ہیں۔ اگر دشمن کے سپاہیوں نے انھیں دیکھ لیا تو پھر کیا ہوگا؟ خطرے کا خیال کرکے وہ لوگ کانپ گئے۔

انھوں نے اُسی وقت چند اور افسروں کو اپنے ساتھ لیا اور بادشاہ کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ وہ ایک سِرے سے لے کر دوسرے سِرے تک پہنچ گئے، مگر بادشاہ کہیں بھی دکھائی نہ دیئے۔ اُسی وقت ایک سپاہی نے انھیں اطلاع دی کہ ایک بار بادشاہ میدان کے آخری حصے میں نظر آئے تھے۔ اس کے بعد کہیں بھی دکھائی نہیں دیئے۔ نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں؟ ایک افسر نے پوچھا… تو تم نے ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا تھا؟ انھیں تنہا کیوں جانے دیا تھا؟ سپاہی نے جواب دیا کہ جناب! میں نے عرض کی تھی… بادشاہ سلامت ! آپ کہاں جارہے ہیں؟ اس کا جواب انھوں نے خاموشی سے دیا اور جب میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا تو کہنے لگے… تم جاؤ، میں ابھی لوٹ کر آتا ہوں۔ یہ لفظ سن کر میں رُک گیا اور وہ آگے بڑھ گئے۔ دوسرے افسر نے پوچھا… کس طرف گئے تھے؟ سپاہی نے وہ جگہ بتادی جہاں اس نے کچھ دیر پہلے بادشاہ کو دیکھا تھا۔ اور وہ اس کے بتائے ہوئے راستے پر قدم اُٹھانے لگے۔ وہ دُور تک چلے گئے، لیکن بادشاہ دکھائی نہ دیئے۔ یکایک انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے بازوؤں پر کچھ اُٹھائے ہوئے چلا آرہا ہے۔

سب کے سب اُدھر گئے۔ جب وہ نزدیک پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ بادشاہ ابراہیم لودھی کو گود میں اُٹھائے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ انھوں نے تیزی سے بڑھ کر اپنے ہاتھ بڑھائے کہ بادشاہ کو اس بوجھ سے نجات دلائیں، مگر بادشاہ نے انکار کردیا اور کہنے لگے… نہیں، میری عزت اِسی میں ہے کہ اس بہادر سپاہی کو اپنے بازوؤں ہی پر اُٹھائے اپنے خیمہ تک لے جاؤں گا۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو۔ افسروں نے ہر چند کہا… بادشاہ سلامت! آپ تھک جائیں گے، مگر وہ نہ مانے اور اسی رفتار سے چلتے رہے۔ سارے افسر اُن کے پیچھے پیچھے روانہ ہوگئے۔ جنگ کے میدان اور شاہی خیمے کا کافی فاصلہ تھا۔ یہ سارا فاصلہ بابر بادشاہ نے لودھی کو خود اُٹھائے طئے کیا۔ خیمے میں پہنچ کر انھوں نے اپنے سب افسروں اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ ابراہیم لودھی کو اس احترام سے دفن کیا جائے، جیسے وہ ان کا اپنا بادشاہ ہے! بابر بادشاہ ایک عام سپاہی کی طرح اُس کے جنازے میں شامل ہوئے، اور جب تک کام ختم نہ ہوا، وہیں کھڑے رہے اور دوسروں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ یوں لگتا تھا کہ اپنے دشمن کو نہیں، سگے بھائی کو دفن کررہے ہوں۔