بابری مسجد مقدمہ

جب اُس کو ہی دوری کا احساس نہیں
ہم نے بھی احساس دلانا چھوڑ دیا
بابری مسجد مقدمہ
بابری مسجد اراضی مقدمہ کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی گئی ۔ ایودھیا میں جس اراضی پر مسجد کو مسمار کردیا گیا تھا یہ مسجد 1526 سے وہاں قائم تھی لیکن 6 دسمبر 1992 کو بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین کے مبینہ طور پر اکسانے یا اشتعال دلانے کی وجہ سے کارسیوکوں کے نام پر کئی شرپسندوں نے مسجد کو مسمار کردیا ۔ اس وقت کی حکومت نے ریاست یو پی میں صدر راج نافذ کر کے چند دنوں بعد 66.7 ایکڑ کی اراضی کے حصول کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا ۔ اس میں بابری مسجد کی اراضی 2.7 ایکڑ بھی شامل ہوئی ۔ اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون میں تبدیل کردیا گیا ۔ اس سے بعض علاقے ایودھیا ایکٹ 1993 کے تحت حاصل کرلیے گئے ۔ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں اسمعیل فاروقی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے درمیان کیس کو برقرار رکھا گیا تاہم اراضی کے حصول کے لیے مرکز نے جو قانون بنایا تھا اس کی افادیت و اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت تھی ۔ دراصل مرکز نے یہ اراضی 1992 کے فوری بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کے لیے حاصل کی تھی آج کی تاریخ میں مرکز کو اس اراضی کی ملکیت کا حق نہیں ہے ۔ متنازعہ اراضی کو حاصل کرنے کا مرکز حق ہی نہیں رکھتا ۔ سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر مقدمہ کی سماعت ہورہی ہے کہ آخر بابری مسجد کی اراضی کی ملکیت کس کے حوالے کی جائے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ہی یہ اراضی متعلقہ فریق کے حوالے کی جائے گی لیکن 2010 اور الہ آباد ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ نے اس اراضی کو سنی وقف بورڈ اور ہندو تنظیم نرموہی اکھاڑہ کے درمیان تقسیم کردی تھی ۔ نرموہی اکھاڑہ رام لیلا کے مقام کے لیے نمائندگی کررہا ہے ۔ فی الحال سپریم کورٹ میں اس مقدمہ پر کی گئی اپیل کی سماعت کررہا ہے ۔ اس کیس کو جنوری تک ملتوی کردیا گیا لیکن حکومت اور آر ایس ایس کے گوشوں میں یہ زور دیا جارہا ہے کہ حکومت کو آرڈیننس قانون لاکر رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانا چاہئے ۔ یہ سوال تو بعد میں اٹھے گا کہ حکومت کو قانون بنانا چاہئے یا نہیں ۔ اب سپریم کورٹ میں اراضی کی ملکیت کا جو مقدمہ چل رہا ہے اس کا فیصلہ آنے تک کچھ نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی کے قائدین اور آر ایس ایس کے لوگ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں ۔ بی جے پی لیڈر مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کا یہ کہنا ہے کہ عوام کی اکثریت عاجلانہ سماعت کی خواہاں ہے ۔ بی جے پی کے سخت گیر قائدین جیسے گری راج سنگھ وغیرہ اس مسئلہ کو 1992 کی طرح گرما گرم بنانا چاہتے ہیں ۔ ہندوتوا تنظیمیں آرڈیننس بنانے کے لیے نریندر مودی حکومت پر زور دے رہی ہیں لیکن آیا یہ آرڈیننس لانا اتنا آسان ہوگا جس کیس کی سماعت یعنی اصل اراضی کی ملکیت کا مسئلہ ہی واضح نہیں ہوا تو آرڈیننس لاکر حکومت کس جگہ پر مندر بنائے گی بہر حال یہ ہندوتوا تنظیموں کی ووٹ بینک چال ہے جو 2019 کے عام انتخابات تک اس مسئلہ کو گرم رکھنا چاہتے ہیں ۔ حکومت کے لیے یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ وہ قانون یا آرڈیننس کے ذریعہ ایودھیا میں رام مندر بنا سکے کیوں کہ اس معاملہ میں لیجسلیٹو اقدامات کرنے سے کسی بھی صورت میں کیس درج ہوگا سب سے پہلے تو مرکز کو اراضی کی ملکیت میں اپنے رول کو ترک کرنا ہوگا ۔ کیوں کہ قانون میں یہ واضح ہے کہ مرکز کی جانب سے جو اراضی حاصل کی گئی ہے وہ عارضی ہے ۔ کیوں کہ سپریم کورٹ نے 1994 میں ہی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ متنازعہ اراضی اور اطراف کی زمین کا حصول پر زیر التواء ہوگا اگر متنازعہ اراضی کے تعلق سے تنازعہ زیر التواء ہے اس لیے مرکز کو اس مقام پر جوں کا توں موقف برقرار رکھنا ضروری ہے اگر حکومت کی زیادتی ہوتی ہے اور اس نے رام مندر کے لیے یہ اراضی ہندوتوا کے حوالے کرتی ہے تو یہ دستور کے سیکولر نظریہ کے منافی ہوگا اور ملک کی عدالتوں کو پس پیشت ڈالد دینے کے ساتھ دستوری بغاوت کی تعریف میں آئے گا ۔ لہذا مرکز فی الحال اس کیس کو سپریم کورٹ کی راہ داریوں میں زیر سماعت رہنے کے لیے چھوڑنے پر مجبور ہے ۔