بابری مسجد اور رام مندر کے گرما گرم اور خونیں قضیہ کے بیچ مولانا سلمان حسینی ندوی کی دردمندانہ اپیل

 

بابری مسجد اور رام مندر کے مسئلہ کے بارے میں روی روی شنکر سے جو بات شروع ہوئی تھی، وہ ایک بڑا مثبت اور تاریخی قدم تھا، لیکن پرسنل لا بورڈ کے چند لوگوں نے اس کو اختلاف کا موضوع بنایا. پرسنل لا بورڈ کی حکمت عملی نہ طلاق کے بارے میں کامیاب ہوئی نہ مسجد کے بارے میں.

اس طرح کے مسائل میں، ایک ایسے ملک میں، جہاں مسلمان عملاً مکی دور کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس کے تقاضے پورے نہیں کر رہے ہیں، ہندوستان کی پوری قوم کو من حیث القوم اسلام کی دعوت دینا تھا، اس کی تفہیم کرنی تھی اور تصادم اور ٹکراؤ سے گریز کرنا تھا، یا کٹر پنتھیوں سے حدیبیہ کی صلح کو سامنے رکھ کر بات چیت کرنی تھی؛ وہاں ایسا طریقہ اختیار کیا گیا، (اور مسلسل کیا جا رہا ہے) جس کا سب سے پہلے دینی، دعوتی، اجتماعی اور سماجی نقصان ہوتا ہے، پھر سیاسی و انتظامی نقصانات کا سلسلہ چلتا ہے۔

اسلامی شریعت میں مسجد کی کسی جگہ سے مختلف اسباب کی بنیاد پر منتقلی کی دلیلیں اور نظیریں موجود ہیں، اور سب سے بڑی نظیر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل ہے، کہ کوفہ کی ایک مسجد کو انہوں نے دوسری جگہ منتقل کرکے مسجد کی جگہ پر کھجوروں کا بازار قائم فرمایا تھا۔

ہندوستان کے حالات میں 1947ء کے بعد سے ہی جو ایک خاص رخ پر حالات جا رہے ہیں، اور جن میں تحریک ازادی کی عظیم شخصیات کی موجودگی میں 1949ء میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر اس کو عملاً مندر بنا دیا گیا، اور تقریباً 69 سال سےاس میں نماز نہیں ہوسکی، پھر اسکی جگہ مندر بنانے کی خطرناک تحریک 1990ء سے جو شروع ہوئی، (اور آج دوبارہ اسی طرح کی تحریک پھر شروع کی جارہی ہے) وہ 1992ء میں نہ صرف مسجد کی شہادت کا سبب بنی بلکہ ہزاروں مسلمانوں کی مظلومانہ شہادت کا سبب بن کر ملک کے لئے ناسور بن گئی، اور اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار ایک جھوٹی تسلی ہے، جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔
من حیث القوم دعوتِ عام اور تمام باشندگانِ ملک کے لئے اصلاحی اور دعوتی خطاب کا راستہ صرف یہ ہیکہ ہم مسجد وہاں سے منتقل کرنے کی بات کریں، اور تمام مساجد و مراکزِ دین کے تحفظ کا معاہدہ کریں، اس شکست میں ہماری فتح پوشیدہ ہے۔
ملک کے عمومی، متنوع مسائل کے حل کے لئے ہم لوگوں نے جو فلاح انسانیت بورڈ (Humanity Welfare Board) بنایا تھا، اس کے تمام ممبران سے، اور دیگر اتفاق کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنے خیالات سے بذریعہ ای میل، اور واٹس ایپ، مطلع فرمائیں، تاکہ کوئی مثبت اور تعمیری بات چیت شروع کی جا سکے۔
والسلام۔