ایک ایک بات کا حساب دینا ہے

بچو! عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صرف وہی کام ریکارڈ کئے جاتے ہیں جو ہم کرتے ہیں انہی کا حساب کتاب ہوتا ہے جبکہ قرآن میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے اسے محفوظ رکھنے کیلئے ایک نگہبان مقرر ہے ۔مطلب یہ ہوا انسان یہ نہ سمجھے کہ جو بات وہ زبان سے نکال رہا ہے وہ فضاء میں تحلیل ہوکر فنا ہوجاتی ہے۔
جبکہ واقعہ یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی بات ریکارڈ ہورہی ہے اور اسے ریکارڈ کرنے والے مقرر ہیں ۔ یہ ریکارڈ آخرت میں پیش ہوگا اور ہر شخص کو اپنی کہی ہوئی ایک ایک بات کا حساب اور جواب دینا ہے ۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کو قابو میں رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ہر مسلمان ایک ذمہ دار فرد کی طرح معاشرے میں زندگی بسر دے اس کے منہ سے جو بات نکلے وہ سچی اور کھری ہو اور وہ اپنے کسی قول و فعل سے کسی غیر ذمہ داری کا ثبوت نہ دے ۔ اس تمام تاکید و تعلیم کے باوجود ہمارا کیا حال ہے ہماری زبانیں اتنی بے قابو ہوگئی ہیںکہ ان کے استعمال میں ذمہ داری کا تصور ہی باقی نہیں رہا ، جو کوئی اڑتی ہوئی بات کہیں سے ہم تک پہنچتی ہے ہم اسے ذرا برابر تاخیرکئے دوسروں تک پہنچادیتے ہیں۔ اور اس بات کو موثر بنانے کیلئے نمک مرچ بھی لگادیتے ہیں۔ ہم غور تک نہیں کرتے کہ جو بات دوسروں کو بتا رہے ہیںوہ صحیح بھی ہے یا نہیں وہ دوسروں کو سنانے کی ہے بھی یا نہیں ۔ سارے فساد کی جڑ اور ساری بد گمانیوں اور خرابوں کی بنیاد اور دشمنیوں کا سبب یہی سنی سنائی اور بغیر تحقیق کے پھیلائی جانے والی بات ہے ۔