ایک اور عظیم اتحاد کی پہل

غنچہ گُل غیر سے ہیں اجنبی سی ہے بہار
کیا رہیں گلشن میں ہم بدلے ہوئے حالات میں
ایک اور عظیم اتحاد کی پہل
بہار میں لالو پرساد یادو کی جانب سے منعقد ہ مخالف بی جے پی ریلی میں جنتادل یو کے لیڈر شرد یادو نے اعلان کیا کہ وہ قومی سطح پر ایک اور عظیم اتحاد بنانے کی کوشش کرینگے ۔ ویسے تو شرد یادو کی سیاسی اعتبار سے اب کوئی طاقت نہیں رہ گئی ہے لیکن ان کی اہمیت سے اب بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ بہار کے مقبول عام قائدین میں سے ایک ہیں اور انہوں نے بیشتر موقعوں پر اپنی جماعت کیلئے نمایاںخدمات انجام دی ہیں۔ شرد یادو نے نتیش کمار جانب سے بہار کے عظیم اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے دوبارہ حکومت بنانے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی اور اس کے بعد سے پارٹی نے بھی ان کو نظر انداز کردیا ہے ۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ بی جے پی سے اتحاد کا فیصلہ انہوں نے پارٹی قائدین کے مشورہ سے ہی کیا ہے اور ان کے فیصلے کو ساری پارٹی کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔ بی جے پی سے اتحاد کے بعد حکومت بناتے ہوئے شرد یادو کو بھی مرکزی وزارت میں شامل کرنے یا پھر انہیں کوئی اور اہم سرکاری عہدہ فراہم کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی تاہم شرد یادو نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور اب انہوں نے بی جے پی کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور کوشش کا حصہ بنتے ہوئے قومی سطح پر ایک عظیم اتحاد تشکیل دینے کی بات کہی ہے ۔ شرد یادو کی جانب سے جو پہل کی جا رہی ہے اس کی ساری اپوزیشن جماعتوں کو تائید و حمایت کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک بی جے پی سے متحدہ اور مشترکہ مقابلہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک اسے شکست سے دوچار کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ بی جے پی کے پاس تشہیری ہتھکنڈے اور حربے بہت زیادہ ہیں ۔قومی سطح پر میڈیا بھی اس کا آلہ کار بنا ہوا ہے ۔ اس کی خامیوں کوچھپاتے ہوئے اس کے عام اور معمول کے کاموں کو کارناموں کے طور پر پیش کرتے ہوئے بی جے پی کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے ۔ ایسے میں اگر شرد یادو نے یہ پہل کی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اس طرح کی کوششوں میں ہر سکیولر اور ملک کے مستقبل کیلئے فکرمند سیاسی جماعت کو ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس عظیم اتحاد کی پہل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے اپنی جانب سے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔
قومی سطح پر ایک عظیم اتحاد کے قیام کیلئے جہاں سکیولر علاقائی جماعتوں کی تائید حاصل کی جانی چاہئے وہیں اس کی بڑے پیمانے پر اور شدت کے ساتھ تشہیر کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کے پاس تشہیری حربے اور ہتھکنڈے بہت زیادہ ہیں ۔ اس نے ابھی سے آئندہ انتخابات کی تیاریوں کے طور پر نفسیاتی جنگ شروع کردی ہے ۔ اس نے مشن 350 کو پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کے حوصلے پست کرنے کی مہم کا آغاز کردیا ہے اور ابھی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بی جے پی آئندہ انتخابات میں مزید شاندار طریقے سے کامیابی حاصل کریگی ۔ انتخابات کا جو مسئلہ اور ماحول ہوتا ہے وہ قدرے مختلف ہوتا ہے اور قبل از وقت اس تعلق سے کوئی بھی بات قطعیت سے نہیں کی جاسکتی ۔ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں لیکن امیت شاہ اور بی جے پی کے دوسرے قائدین ہتھکنڈوں اور حربوں میں مہارت رکھتے ہیں اور انہیں قومی سطح پر تقریبا سارے میڈیا کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے ۔ بدلے میں بی جے پی ان میڈیا گھرانوں کی سرپرستی کرنے میں بھی سب سے آگے ہیں۔ مخالفانہ آوازوں کو دبانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ جو میڈیا گھرانے دیانتداری اور پیشہ ورانہ تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں انہیں نشانہ بناتے ہوئے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ انہیں دبانے اور ڈرانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ ان سب کے درمیان اپوزیشن جماعتوں کو ایک حوصلے اور عزم کے ساتھ اٹھنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے پوری توانائی صرف کی جانی چاہئے ۔
شرد یادو کی پہل کو سارے ملک میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ چاہے وہ مغربی بنگال کی ممتابنرجی ہوں یا اترپردیش کے اکھیلیش سنگھ یادو ہوں ‘ چاہے وہ بیجو جنتادل کے نوین پٹنائک ہوں یا پھر این سی پی کے شرد پوار ہوں ‘ چاہے وہ کشمیر کی نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ ہوں یا آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی ہوں ‘ چاہے وہ آر ایل ڈی کے اجیت سنگھ ہوں یا پھر بی ایس پی کی مایاوتی ہوں ‘ چاہے ٹاملناڈو کی جماعتیں ہوں یا کوئی اور جو لوگ بی جے پی کے مخالف ہیں اور سکیولر اصولوں پر یقین رکھتے ہیں ان سب کو ساتھ لیتے ہوئے کانگریس کی تائید سے تمام اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص توجہ اس اتحاد کی تشکیل اور اس کے عزائم کی شدت کے ساتھ تشہیر پر بھی دی جانی چاہئے کیونکہ یہ ایک نفسیاتی حربہ ہوسکتا ہے جس سے بی جے پی کے ہتھکنڈوں کو اثر انداز ہونے سے روکا جاسکتا ہے ۔