ایک اور بھارت بند

برق و باراں پہ رہی اہل گلستاں کی نظر
آتش گل سے کبھی آگ لگا دی جائے
ایک اور بھارت بند
دلتوں کی آواز کو دبانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر تحفظات کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت بند کا اعلان کرنے والوں کے تعلق سے ملک کا نظم و نسق درست طور پر واقف نہ ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے ملک بھر میں تشدد کی نئی لہر کو ہوا دی جارہی ہے۔ دلتوں نے ایس سی ؍ ایس ٹی مظالم قانون میں بعض دفعات کو نرم کرنے یا ترمیمی فیصلہ کرنے کے خلاف 2 اپریل کو بھارت بند منایا تھا جو ملک کی کئی ریاستوں میں کامیاب رہا۔ تشدد میں 9 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دلتوں کی آواز گونج اٹھی تھی لیکن سیاسی سازش بازوں نے اس آواز کو مزید بلند ہونے سے روکنے کے لئے اچانک مخالف تحفظات بھارت بند احتجاج کیا۔ بھارت بند کے حامیوں نے بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان میں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی۔ صرف سوشیل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ان دنوں کچھ ہنگامہ برپا کیا جاسکتا ہے۔ بھارت بند منانے کا اعلان بھی اس سوشیل میڈیا پر کیا گیا تھا۔ آخر ایک اعلان کے فوری بعد سڑکوں پر احتجاجیوں کا اُمڈ آنا حیرت انگیز بات ہے۔ کوئی بھی احتجاج منظم طریقہ سے ہوتا ہے، لیکن مخالف ذات پات تحفظات کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے راتوں رات سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی شروع کردی جبکہ حقیقت اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس احتجاج کے لئے باقاعدہ کسی تنظیم نے بھی دمہ داری نہیں لی ہے۔ بھارت بند کے اعلان کا اثر صرف چند ریاستوں میں دیکھا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بھنڈ اور مرینا میں مظاہرین کے احتجاج کی وجہ سے کرفیو لگا دیا گیا۔ بہار کے آراء میں مظاہرین نے ٹرین روک دی۔ اترپردیش کے فیروزآباد میں اسکول بند رکھے گئے۔ تعلیم اور روزگار میں دلتوں کو ذات پات کی بنیاد پر تحفظات دینے کے خلاف آواز اٹھانے والے یہ لوگ اعلیٰ ذات کے قائدین کی کٹھ پتلی ہوسکتے ہیں یا پھر عام انتخابات سے قبل ملک کو بدامنی کی آگ میں جھونک کر اپنا سیاسی مقصد پورا کرنے والے سیاست داں ہوسکتے ہیں۔ جن سرکاری ملازمین نے 2 اپریل کو دلتوں کے بھارت بند میں حصہ لیا تھا، انہیں سرکاری محکموں نے معطل کردیا۔ مدھیہ پردیش نے اپنے ملازمین کو سزا دیتے ہوئے دلتوں کا ساتھ دینے کے خلاف کارروائی کی۔ یہ ملک میں نئی قسم کی نفرت اور تشدد کی لہر اٹھائی جارہی ہے جو ایک خطرناک منصوبہ کا آئینہ معلوم ہوتی ہے۔ مودی حکومت کی عوامی پالیسیوں میں بری طرح ناکامی کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کی غرض سے یہ سب ڈرامہ بازی کی جارہی ہے تو یہ افسوسناک عمل ہے۔ حکومت کی سطح پر رچائی جانے والی سازشوں کو نظم و نسق کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے بظاہر ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے علاقوں میں بھارت بند کے پیش نظر پیدا ہونے والی صورتحال سے اچھی طرح نمٹے لیکن سب سے زیادہ احتجاج بی جے پی حکمراں والی ہی ریاستوں میں دیکھا گیا ہے۔ دلتوں کو ہر جگہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ جب دلت طبقے کے لوگ اپنے خلاف ہونے والی ظلم و زیادتیوں پر آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں مزید نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2014ء میں مودی حکومت کو ووٹ ڈالنے والے دلتوں کو آج اس حکومت میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو یہ خطرناک تبدیلی ہے۔ خود بی جے پی میں دلت لیڈروں کی توہین کی جارہی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے 2 اپریل کو پولیس کی جانب سے دلتوں کو ہراساں کرنے پر احتجاج کیاتھا۔ بی جے پی کے اندر بھی دلت قائدین کے ساتھ ہراسانی جیسا رویہ اختیار کرنے کی شکایت سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوجانا چاہئے کہ اس ملک میں بی جے پی اپنی پالیسیوں کو روبہ عمل لانا چاہتی ہے یعنی دلتوں اور مخالف دلتوں کے درمیان تصادم کی نوبت لاکر اپنی حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ بھارت بند کی کامیابی کے بعد حکمراں پارٹی کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ انہوں نے متحدہ طور پر اپنے حقوق کے لئے احتجاج کیا تھا۔ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) صدر مایاوتی نے یہی دعویٰ کیا کہ بی جے پی اب خوف زدہ دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بی جے پی زیرقیادت حکمرانی والی ریاستوں میں ہی دلتوں پر سب سے زیادہ مظالم ہوئے ہیں اور ان حکومتوں نے دلتوں کے حقوق نظرانداز کردیا تھا ۔ اب دلتوں کی متحدہ آواز نے بی جے پی کو خوف زدہ کردیا ہے۔ ملک میں مخالف ذات پات تحفظات کا یہ بھارت بند کیا معنی رکھتا ہے اور اس کی جو کوئی سرپرستی کررہا ہے۔ وہ بی جے پی کی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لئے غیرضروری مسائل پیدا کرے گی۔ تو یہ مسائل خود اس کے لئے سنگین صورتحال پیدا کریں گے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جس کو عام انتخابات کا سامنا کرنے میں ابھی سے فکر ہونے لگی ہے۔ آگے چل کر وہ عوام کے غیض و غضب کا شکار ہوجائے گی۔