ایک اور آواز دبا دی گئی

آنکھ جھپکی تو ہوا یہ محسوس
عشق کی صُبحِ قیامت کیا تھی
ایک اور آواز دبا دی گئی
بنگلورور میں صحافی گوری لنکیش کا قتل کردیا گیا ۔ یہ در اصل ایک فرد کا قتل نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریہ کا قتل ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جو فاشسٹ طاقتوںکو مزید سر ابھارنے اور اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے خلاف پیدا ہونے والا نظریہ ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں نریند ر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے حکومت بنائی ہے اور اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے ملک میں معقولیت پسندوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا عمل شروع ہوگیاتھا اور جو کارکن اور عناصر انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حق کی اور سچائی کی آواز کو بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے انہیں قتل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ۔ مہاراشٹرا اور کرناٹک کے ایک دوسرے سے قریب علاقوں میں یہ رجحان انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ یہ عدم رواداری کی بدترین مثال ہے ۔ جو کوئی فاشسٹ نظریات کو یا پھر سرکاری پالیسی کو اختلافی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اس کو ہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کا عمل شروع کردیاگیا ہے ۔ یہ معقولیت پسند سماج میں انصاف کیلئے آواز بلند کر رہے تھے ۔ یہ لوگ ملک کو فاشسٹ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنتا نہیں دیکھ پا رہے تھے اور فاشسٹ طاقتیں ان کی مزاحمت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مہاراشٹرا کے شہر پونے میں پنسارے کو قتل کیا گیا ۔ دھابولکر کو قتل کیا گیا ۔ کرناٹک میں کلبرگی کو قتل کردیا گیا اور اب ایک جہد کار صحافی گوری لنکیش کو موت کی نیند سلادیا گیا ۔ جو عناصر اس طرح کے قتل و خون کے پس پردہ کار فرما ہیں ان کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور یہی چھوٹ ان کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔ یہ قتل صرف دو یا چار افراد کی کارستانی نہیں ہوسکتی اور نہ اس کو اس پہلو سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ قتل ایک منظم سازش کا حصہ ہے اور یہ سازش ایک نظریہ کی بنیاد پر کی جا رہی ہے ۔ یہ نظریہ ہندوستان کو فاشسٹ طاقتوں کا غلام اور یرغمال بنانے کا ہے اور جو کوئی اس نظریہ کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں نشانہ بنانے اور موت کی نیند سلانے کا عمل انتہائی تیز ہوگیا ہے اور یہ صورتحال ایک جمہوری اور امن پسند ہندوستان میں انتہائی افسوسناک ہے ۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف زبانوں کے بولنے والے لوگ رہتے بستے ہیں۔ یہ ملک سب کا ہے اور کسی ایک مخصوص اور نفرت پر مبنی نظریہ کو اس ملک میں تسلط حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
فاشسٹ طاقتیں اس ملک کو اپنے عزائم کے مطابق ڈھالنے کیلئے کوشاں ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اقلیتیں ان کے اشاروں پر ناچیں۔ دستور میں انہیں جو حقوق دئے گئے ہیں ان کو بھول جائیں اور مساوات کا کبھی دعوی کئے بغیر دوسرے درجہ کے شہری بن کر اگر رہنا چاہیں تو رہیں۔ انہیں کسی قسم کی سماجی سہولت حاصل نہیں ہوگی ۔ جو اکثریت چاہے گی وہی ان کو کرنا ہوگا ۔ فاشسٹ طاقتیں جو چاہیں گی اس ملک میں وہی ہوگا اور ان طاقتوں کو نہ قانون کا کوئی خوف رہ گیا ہے اور نہ انہیں اپنے کرتوتوں کی سزا ملنے کا ڈر ہے ۔ آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ حکومت کے خیال سے یا پھر فاشسٹ طاقتوں کے خیال سے اختلاف کرنے والوں کا جینا مشکل کردیا گیا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں یا تو خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ یا انہیںخریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اگر یہ دونوں کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو انہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کیا جا رہا ہے ان کی آواز کو کچلا جا رہا ہے ۔ یہ وہ ہندوستان نہیں ہے جس کا خواب دیکھتے ہوئے ہمارے مجاہدین آزادی نے انگریزی سامراج اور غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ملک کو آزادی دلائی تھی ۔ آزادی کے بعد ملک کیلئے جو دستور تیار کیا گیا تھا اس کو آج پورے دھڑلے سے پامال کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ جو عناصر معقولیت پسند اور انصاف پسند عناصر کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں وہ اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ سوشیل میڈیا کا سہارا لے کر ان کے خلاف مذموم مہم چلائی جا رہی ہے ۔ ان کے خلاف غیر انسانی تبصرے کئے جارہے ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم ایسے عناصر کی ٹوئیٹر پر یا سوشیل میڈیا پر خاموش تائید کر رہے ہیں۔
ایک بہتر سماج اور ایک بہتر ہندوستان کا خواب دیکھتے ہوئے اپنے قلم سے جدوجہد کرنے والی ایک شخصیت کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور پھر اسی متوفی خاتون صحافی کے تعلق سے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جو انتہائی شرمناک ہیں ۔ یہ تبصرے اورسوشیل میڈیا کی مہم ہندوستان کی روایات کے یکسر مغائر ہے اور یہ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی اصل روایات اور اقدار پامال ہوجائیں اور ملک اور ملک کے عوام فاشسٹ نظریات کا شکار ہوجائیں۔ انتہائی مذموم صورتحال آج اس ملک میں پیدا ہوگئی ہے اور اب تو حکومت سے بھی حالات سدھارنے کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جہاں معقولیت پسند اور انصاف پسند سوچ رکھنے والے عناصر کو جامع انداز میں سرگرم ہونے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہیںہوتا ہے تو اس ملک کو فاشسٹ طاقتوں کا یرغمال بننے سے روکنا مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا ۔