ایما ن دار تاجر

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ قرآن اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔ آپ ؒ ملک عراق کے ایک شہر کوفہ کے رہنے والے تھے اور کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ آپؒ کو ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا تھا کہ جو آمدنی بھی ہو حق حلال کی ہو۔ ایک بار حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے اپنے ایک ملازم کو کپڑے کے کچھ تھان دیئے کہ جاکر بازار میں فروخت کر آؤ۔
ان میں سے ایک تھان میں کچھ خرابی تھی۔ آپؒ نے ملازم کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’’ دیکھو، جب تم یہ تھان فروخت کرنے لگو تو گاہک کو بتادینا کہ اس میں یہ خرابی ہے تاکہ گاہک دھوکے میں نہ رہے۔‘‘ ملازم تھان لے کر بازار چلا گیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ تمام تھان بڑی اچھی قیمت پر بک گئے مگر ملازم کو اس بات کا خیال نہ رہا جو امام ابو حنیفہ ؒ نے اسے سمجھائی تھی۔ اس نے گاہک کو بتایا ہی نہیں کہ ان میں سے ایک تھان خراب ہے۔ تھانوں کی فروخت سے جو رقم ملی،ملازم اسے لے کر خوش خوش گھر آیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ رقم دیکھ کر امام صاحب ؒ بہت خوش ہوں گے مگر جب ملازم نے وہ رقم امام صاحب ؒ کے حوالے کی تو آپ نے اس سے پوچھا: ’’ کیا تم نے وہ خراب تھان گاہک کو دکھادیا تھا اور اسے بتادیا تھا کہ اس میں نقص ہے؟ ‘‘’’ حضرت، مجھے تو خیال ہی نہیں رہا۔ گاہک نے تھانوں کی ایسی اچھی قیمت لگائی تھی کہ خوشی کے مارے میں آپ کی بات بھول ہی گیا۔‘‘  یہ سن کر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے رقم نوکر کو واپس کرتے ہوئے کہا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’بیچنے والے کو اپنی چیز کا عیب گاہک کو بتادینا چاہئے، جو شخص اپنی چیز کا نقص چھپاکر فروخت کرتا ہے وہ حرام کھاتا ہے‘‘۔ جاؤ یہ تمام رقم خیرات کر آؤ۔ یہ ہمارے لئے حلال نہیں۔‘‘