ایمانی خصلتیں

مولانا محمد خالد سعید
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو اسے خیر کی (بھلی)بات کہنی چاہئے یاخاموش رہنا چاہئے، اورجوشخص اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو اسے اپنے پڑوسی کا اکرام کرنا چاہئے، اور جوشخص اللہ پراور آخرت کے دن پرایمان رکھتاہو اسے اپنے مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔(رواہ البخاری ۲؍۸۸۹، ومسلم۱؍۵۰ واللفظ لہ) یہ حدیث شریف جوامع الکلم میں سے ہے ایک زبردست عالم امام ابو محمد عبداللہ بن ابی زید مالکی فرماتے ہیں کہ تمام آداب خیر چارحدیثوں سے متفرع ہیں(گویاچار حدیثیں تمام اچھے آداب کے لیے اصول کی حیثیت رکھتی ہیں)اور پھرانھوں نے مذکورہ بالاحدیث کو بھی ان چارحدیثوں میںذکر فرمایاہے۔ (شرح مسلم للنووی ۱؍۵۰) اس حدیث شریف کے اندر تین اہم ایمانی خصلتوں کو بیان فرمایا گیا ہے (۱)خیرکی بات کہنا اور دیگر باتوں پر خاموش رہنا،(۲)پڑوسی کااحترام واکرام کرنا، (۳)مہمان کی عزت اور احترام کرنا۔

مذکورہ حدیث شریف میں سب سے پہلے یہ فرمایا گیاہے کہ ’’جوشخص اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے خیرکی بات کہنی چاہئے یاخاموشی یاخاموش رہنا چاہئے‘‘ ’’فَلْیَقُلْ خیراً أولِیَصْمُت‘‘یعنی مؤمن کوصرف خیر اوربھلائی والی بات ہی کہنی چاہئے جس سے اپنی ذات کو یااللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے اور اس بات پر وہ اجروثواب کا مستحق ہومثلا تلاوت، اللہ کا ذکر، لوگوںکو اچھی اور بھلی باتوں کاحکم کرنا، اور بری باتوں اورگناہوں سے منع کرنا، لوگوں کو دین کی باتیں بتانا، دینی کتابیں پڑھنا پڑھانا وغیرہ، اور جوباتیں مباح کے قبیل سے ہوں جن پر اجروثواب ہے نہ عقاب، بغیر ضرورت کے ان باتوں کو بھی زبان پرنہ لائے، اور ضرورت کے وقت جب ایسا مباح کلام کرے تو صرف ضرورت کے بقدر ہی کرے؛ اس لیے کہ مباح کلام میں اگرچہ کوئی گناہ اور عقاب نہیں ہے لیکن اس کلام میں آدمی کی زندگی کے جوبیش قیمت لمحات ضائع ہوجائیںگے ان پر آخرت میں اس کو بہت ہی افسوس اور حسرت ہوگی، اور بلاضرورت مباح کلام سے اس لیے بھی بچنا چاہئے کہ بہت سی مرتبہ بات مباح سے بڑھ کر مکروہ اورحرام تک پہنچ جاتی ہے۔

٭ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ فضول کلام سے بچو، آدمی کے لیے اتناہی کلام کافی ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے (جامع العلوم والحکم ص۲۴۰، کتاب الصمت لابن أبی الدنیا ص ۷۴)٭ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آدمی جب کلام کرنا چاہے تو اچھی طرح سوچ لے اگر اس کلام میں اپنا کوئی ضرر اور نقصان نہ نظرآئے تو کلام کرے، اوراگر اپنا نقصان نظرآئے یا نقصان اورعدم نقصان میں شک ہو تو پھر اس کلام سے رک جائے۔ (شرح مسلم للنووی ۱؍۵۰) ٭ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے درخواست کی کہ آپ مجھے نصیحت فرمادیں تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’کلام نہ کیا کرو‘‘اس نے کہا کہ لوگوں کے بیچ زندگی گذارنے والا شخص کلام کیے بغیر کیسے رہ سکتاہے، تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم کلام کیے بغیر نہیں رہ سکتے تو حق بات کہو یا خاموش رہو۔ (جامع العلوم ص ۲۴۱، کتاب الصمت ص ۵۸) ٭ حضر ت سیدنا لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگرکلام اور گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سوناہے‘‘حضرت عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے اس کا مطلب پوچھاگیا تو آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ کی اطاعت میں کلام چاندی ہے تواللہ کی معصیت اورگناہ والی بات سے خاموشی سوناہے۔ (جامع العلوم والحکم ص ۲۴۲) ٭ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ دوچیزوں فضول مال اور فضول کلام میںہلاک ہورہے ہیں (کتاب الصمت ص ۸۴،جامع العلوم ص ۲۴۰)

کثرت کلام سے اس لیے بھی منع فرمایا گیاہے کہ اس کی وجہ سے عموماً گفتگو میں جھوٹ ، غیبت، چغلی، فضول اورلایعنی باتیں درآتی ہیں، اورآدمی کے ظاہر وباطن پراس کا بہت برا اثر پڑتا ہے اوردل میں قساوت اورسختی پیدا ہوجاتی ہے اورپھر دل نیکی اورطاعات کی طرف مائل نہیں ہوتاہے بلکہ اس کامیلان شرکی طرف بڑھ جاتاہے۔٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے ایساعمل سکھادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام آزادکرنے وغیرہ چند اعمال ذکر کرنے کے بعد فرمایا ’’فإنْ لَمْ تُطِقْ ذٰلک فَأَطْعِمِ الجائِعَ واسْقِ الظَّمْآنَ واْمُرْ بالمَعرُوفِ وَانْہَ عَنِ المُنْکَرِ،فإنْ لَمْ تُطِقْ ذٰلک فَکُفَّ لِسَانَکَ إلاّ مِنَ الخَیرِ ‘‘۔ (مسنداحمد ۴؍۲۹۹) ترجمہ: اگرتم گردن آزاد کرنے وغیرہ اعمال کی طاقت نہ رکھ سکو تو بھوکے کوکھانا کھلائو، پیاسے کو پانی پلائو، اچھی بات کا حکم کرو اوربری بات سے روکو، اگرتم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو اپنی زبان کو خیر کے علاوہ باتوں سے رو ک لو۔

بہرحال ایک مومن کی شان یہی ہے کہ وہ اپنی زبان کوہمیشہ خیر ہی میں استعمال کرے اور خیر کے علاوہ بات پر زبان بندکرلے اورخاموش رہے ، یہ ایک مؤمنانہ خصلت ہے جوہر مسلمان کے اندر پائی جانی چاہئے، حدیث شریف کے اندر جوپیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے ’’ مَنْ کانَ یُؤ مِنُ باللہِ والیومِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خیراً أولِیَصْمُتْ‘‘اس سے مسلمانوں کو یہی پیغام دینا مقصود ہے۔

گستاخِ رسول کا انجام
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا، اُس نے سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ رکھی تھی اور جو شخص سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ لیتا تھا تھا، وہ ہم میں نہایت معزز سمجھا جاتا تھا۔ وہ شخص اسلام سے پھرکر مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جاملا اور ان سے کہنے لگا کہ ’’میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں، محمد (مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے جو چاہتا لکھ دیتا تھا۔ جب وہ شخص مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کو زمین قبول نہیں کرے گی‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ وہ اس جگہ آئے، جہاں وہ شخص مرا پڑا تھا، تو دیکھا کہ اس کی لاش زمین کے اوپر باہر پڑی تھی۔ انھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ ’’اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ تو لوگوں نے بتایا کہ ’’ہم نے اسے کئی بار دفن کیا، مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب۔ صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقین)