ایمانِ کامل اور ناقص کی کسوٹی

مولانا غلام رسول سعیدی
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایمان کے کمال اور اس کے نقصان کی ایک کسوٹی بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’بلاشبہ نماز کا پڑھنا دشوار ہے، سوا ان لوگوں کے جو یقین رکھتے ہیں کہ انھیں ایک دن اپنے رب سے ملاقات کرنی ہے اور آخرت میں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۴۵،۴۶) اس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نماز پڑھنے کو دشوار اور بھاری سمجھتے ہیں، ان کا نہ تو اللہ تعالی سے ملاقات پر ایمان ہے اور نہ ہی ان کا آخرت پر کوئی یقین ہے۔ ایمان کے نہ ہونے کا معیار اور کسوٹی میری یا آپ کی بیان کردہ نہیں ہے، بلکہ خود اللہ تعالی نے ایمان کا یہ معیار بیان فرمایا ہے۔ اس کسوٹی کی بنیاد پر ہم اپنا جائزہ لیں کہ آیا نماز کا پڑھنا ہم پر گراں اور دشوار ہے یا سہل اور آسان۔ اس طرح ہم اپنی زندگی کا تجزیہ کرکے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے بیان کردہ اس معیار پر ہمارا اور آپ کا ایمان کس حد تک پورا اترتا ہے۔
جب انسان کا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کمزور ہوتا ہے تو وہ بظاہر عبادت کرتا ہے، احکام الہی کی اتباع بھی کرتا ہے اور منہیات سے اجتناب بھی کرتا ہے، لیکن اگر ہم اس کی عبادات کا تجزیہ کریں تو اس کی عبادت درحقیقت اللہ تعالی کی اطاعت کے جذبہ اور اس کی فرماں برداری کی نیت سے خالی ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ جب محلہ میں کسی بااثر شخصیت یا خاندان کے کسی عزیز فرد کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی نماز جنازہ میں اس قدر کثیر افراد جمع ہو جاتے ہیں کہ جنازگاہ میں جگہ نہیں ملتی اور یہ تمام لوگ جو اس نماز جنازہ کو پڑھنے کے لئے اس جوش و خروش سے جمع ہوتے ہیں، کیا یہ سب لوگ پانچ وقت کی فرض نمازیں بھی اسی جوش و خروش سے پڑھتے ہیں؟ اور اگر نہیں پڑھتے اور فی الواقع نہیں پڑھتے تو آخر اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ کیا نماز جنازہ کسی اور خدا نے فرض کی ہے ؟ اور روزہ مرہ کی پانچ نمازیں فرض کرنے والا کوئی اور خدا ہے؟۔ جب کہ روز مرہ کی پانچ نمازیں فرض عین ہیں اور نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر اللہ تعالی کی عبادت اور اس کی اطاعت کا جذبہ ہمارے دلوں میں موجزن ہوتا تو نماز جنازہ کی نسبت روزمرہ کی پانچ نمازوں کو ہم زیادہ جوش و خروش سے پڑھتے اور جب ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں ہماری یہ کثرت، اژدہام اور جوش و خروش محض خاندانی رسم و رواج اور محلہ داری کے روابط قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے اور ہمارے اس عمل میں اللہ تعالی کی عبادت کا کوئی جذبہ کار فرما نہیں ہوتا۔
اسی طرح عید کی نماز میں لوگوں کا زبردست ہجوم ہوتا ہے۔ زرق برق کپڑے پہن کر خوشبوؤں سے معطر لوگ جوق در جوق کھلے میدانوں، عیدگاہوں اور شہر کی تمام چھوٹی بڑی مسجدوں میں جوش و خروش سے نماز عید پڑھنے کے لئے پہنچتے ہیں، حتی کہ مساجد تنگ ہو جاتی ہیں اور لوگ سڑکوں پر چادریں بچھاکر نماز پڑھتے ہیں۔ اس موقع پر لوگوں کی کثرت اور اژدہام کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عید کی نماز جس جذبہ اور شوق سے لوگ پڑھتے ہیں، وہ ذوق و شوق کا اثر اور کثرت و اژدہام روزمرہ کی پانچ نمازوں میں کیوں نظر نہیں آتا؟۔ کیا عید کی نماز کسی اور خدا نے مشروع کی ہے اور روزمرہ کی پانچ نمازوں کو مشروع کرنے والا کوئی اور خدا ہے؟ جب کہ پنجگانہ نمازیں فرض عین ہیں اور عید کی نماز زیادہ سے زیادہ واجب یا سنت مؤکدہ ہے۔ کیا ہمارے پیدا کردہ اس فرق سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عید کی نماز میں ہماری یہ کثرت و اژدہام، یہ اہتمام و احتشام، یہ ذوق و شوق اور جوش و خروش اطاعت الہی اور اس کی عبادت کے جذبہ سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عید کا دن ہمارے لئے ایک تہوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور اس دن کی نماز ہماری معاشرت، ثقافت اور تہذیب و تمدن کا ایک جزو بن چکی ہے۔ لہذا ہم اپنے مذکورہ اعمال اور مزاج سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ہمارا ایمان کامل ہے یا ناقص؟۔