ایمانداری

بہت دنوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ چاروں میں بڑی گہری دوستی تھی۔ ان چاروں کے نام احمد، ناصر، توصیف اور نصراللہ تھے۔ ان میں سے نصراللہ ایماندار اور سیدھا سا آدمی تھا۔ جب چاروں بازار کوئی چیز خریدنے جاتے تو نصر اللہ کو سستی چیز خرید کر دے دیا کرتے تھے تو وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔
ایک مرتبہ چاروں کہیں گھومنے گئے۔ دوپہر تک انہوں نے خوب تفریح کی۔ کچھ دیر ندی میں تیرتے رہے۔ اوپر آئے تو کچھ دور پر کوئی لال چیز نظر آئی تو وہ تینوں زور سے اس کی طرف چل پڑے جب تینوں اس چیز کے پاس پہونچے تو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک لال پوٹلی ہے۔

جب انہوں نے اس پوٹلی کو کھولا تو دیکھا کہ وہ روپوں سے بھری پڑی تھی۔ نصراللہ نے کہا کہ یہ روپئے کسی غریب آدمی کے ہوں گے، ہم اسے ڈھونڈتے ہیں اور روپئے اسے واپس کردیتے ہیں۔ وہ چاروں اس پوٹلی کے مالک کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ یہاں تک کہ غروب آفتاب کا وقت ہوگیا۔ آخر میں انہوں نے مشورہ کیا کہ وہ روپئے آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ روپوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ تینوں نے اپنا اپنا حصہ لے لیا۔ چوتھا حصہ نصراللہ کو دیا گیا لیکن اس نے وہ لینے سے انکار کردیا۔ جب وہ سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تو ایک غریب آدمی روتا پیٹتا وہاں پہونچا لیکن اپنی پوٹلی کو وہاں نہ پاکر اُداس ہوکر واپس چلا گیا۔ ان تینوں نے ان روپوں سے بڑی بڑی دُکانیں کھولیں اور تاجر بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد نصراللہ نے بازار سے مچھلی خریدی اور پکانے کیلئے دے دیا اور گھر سے باہر کسی کام سے چلا گیا۔ نصراللہ کی بیوی نے مچھلی صاف کرنے کیلئے اس کا پیٹ چاک کیا تو اس میں ایک ہرا رنگ کا پتھر نکلا۔ جب نصراللہ گھر آیا ، بیوی نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ نصراللہ نے ایک جوہری کو بلاکر پتھر کو اسے دکھایا۔ جوہری نے بتایا کہ وہ ایک قیمتی پتھر ہے۔ جوہری نے وہ پتھر اس سے مہنگے داموں میں خرید لیا۔ اس نے رقم کا ایک بڑا حصہ مدارس، مساجد اور غریب و مساکین میں تقسیم کردیا۔ تھوڑے روپوں میں ایک دکان کھولی اور ایک کامیاب تاجر بن گیا۔ دوسری طرف اس کے تینوں دوست مفلس و فقیر ہوکر در در کی ٹھوکریں کھارہے تھے۔