ایران کا سفر نامہ 

حکومتِ ایران کے بین الاقوامی عالمی ادارہ اتحادبین المسلم جہاں جس کا ہیڈ کوارٹر تہران ایران میں واقع ہے ، جن کی دعوت پر ہندوستانی علماء و مشائخ کا دس رکنی وفد ایک ہفتہ کے تاریخی دورہ پر یہ وفد شہر تہران کے علاوہ مشہدِ مقدس، خراسان تربتِ جام، طوس میامی، قم ،سمنان ،گیلان کا دورہ کیا۔

یہ دورہ آیت اللہ محسن اراکی صدر بین الاقوامی عالمی ادارہ اتحاد بین المسلم جہاں کی دعوت پر 13 جولائی 2018بروز جمعہ رات دیر گئے تہران روانہ ہوا ۔

اس وفد میں میرے علاوہ قابل ذکر حضرت مولاناخورشید قانون گو سری نگر، کشمیر ،حضرت مولانا سید محمد نظامی سجادہ نشین درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی ، مولانا سید بابر اشرف کچھوچھوی نائب صدر انتظامیہ کمیٹی درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز اجمیر شریف ، مولاناپروفیسر سید محمد علیم

اشرف جائسی خانوادہ کچھوچھہ صدر شعبۂ عربی مولانا آزاد اردو یونیورسٹی(مانو)، مولاناپروفیسرسید حسیب الدین قادری رضوی شرفی چمن صدر شعبۂ انگریزی (مانو ) حیدرآباد ، مولانا سید رضوان پاشاہ قادری خانوادۂ حضرت لطیف لاابالی کرنولی ،

مولانامحمد احمد نقشبندی صدر تحریک صدائے اسلام حیدرآباد ، مولانا حبیب الحسینی صدرمنہاج القرآن ہند بنگلور اور مولانا شبیر وارثی کولکتہ ، اس وفد میں شامل تھے اور ایران کی جانب سے ڈاکٹر حیدر رضا ضابط صاحب ہمارے ساتھ تھے، جو مترجم کے فرائض انجام دیے ۔

یہ وفد دہلی سے 13 جولائی بروزِ جمعہ کو رات دیر گئے تہران کے لیے مہان ایر ویز سے روانہ ہوا اور 14 جولائی بروز ہفتہ صبح کے پانچ بجے تہران کے آیت اللہ خمینی انٹرنیشنل ایرپورٹ پر پہنچا۔

یہاں پہنچنے پر بین الاقوامی ادارہ اتحاد بین المسلم جہاں کے میزبان ، ادارہ کے عہدیداروں کی جانب سے اس وفد کی رسمی طور پر استقبال کیا گیااور یہ قافلہ تہران ایرپورٹ سے لکژری بس کے ذریعہ مہر آباد ڈومیسٹک ایرپورٹ روانہ ہوا ۔

وہاں سے مقدس شہر مشہد کے لیے بذریعہ فلائٹ روانہ ہوئے اور مشہد کی 4 اسٹار ہوٹل بشریٰ کو تقریباً ایک بجے پہنچے اور یہ ہوٹل بارگاہ حضرت سیدنا امام موسیٰ رضا رحمۃ اللہ علیہ سے بہت قریب واقع ہے۔

ہوٹل میں رومس میں جاکر فریش ہوکر دوپہر کے کھانے کے لیے ہوٹل کے اوپری منزل پر کھانا کھاکر تھوڑا آرام کیے۔ میں اور ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی صاحب ایک ہی روم میں تھے ۔

ایران کے بین الا قوامی عالمی ادارہ اتحاد بین المسلم جہاں کی جانب سے آغا روشانی صاحب ہمارے ساتھ تھے وہ کافی خوش مزاج شخصیت کے حامل ہیں۔فارسی میں شعر وشاعری پر کافی عبور رکھتے ہیں، آپ اور خورشید قانون گوچلتے پھرتے فارسی کے اشعار سنا رہے تھے ۔

آغا روشانی ہم کو ایران کے آیت اللہ خمینی انٹر نیشنل ایر پورٹ سے ریسیو کرے جب سے واپس ایر پورٹ چھوڑنے تک ہمارے ساتھ ہی رہے۔ہم نے واٹس اپ پر ایک گروپ بنایا وہ روزآنہ بغیر ناغہ جید بزرگ شاعر وں کا فارسی کلام روانہ کرتے ہیں ۔

ہوٹل سے تقریباً چار بجے اہل سنت و الجماعت کے مفتی حضرات سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگئے، جس میں قابل ذکر خراسان کے اہل سنت و الجماعت کے مفت�ئ اعظم حضرت مفتی علامہ سید ابراہیم فاضل حسینی صاحب جو بہت بڑے سنی مفتی خراسان کے مانے جاتے ہیں اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹرسید یحییٰ حسینی اور دیگر مفتیان اور دینی مدارس کے اساتذہ بھی وہاں پر موجود تھے۔

ان حضرات سے کافی دیر تک بات چیت اور تبادلۂ خیال چلتا رہا اور وہاں کے حالات سے واقفیت حاصل ہوئی ۔

اس بیچ میں چائے ،میوہ جات اور اسناکس پیش کیا گیا اور اس کے بعد مغرب و عشاء کی نماز وہیں پر ادا کیے اور عشاء کے فوری بعد بعد انہیں کے یہاں رات کے کھانے کا انتظام تھا اور وہ کھانا کافی لذیذ تھا اور وہاں سے رات کے تقریباً 10 بجے ہوٹل واپس آگئے اور ہوٹل پر آرام کیا۔

دوسرے دن 15 جولائی بروزِ اتوار ناشتہ کے بعد تقریباً 9 بجے یہ وفد ایران۔افغانستان کی سرحد میں واقع تاریخی شہر تربتِ جام، قراسان جو مشہور و معروف عارف باللہ شیخ الاسلام حضرت شیخ احمد جامی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش 441ھ )کی بارگاہ پہنچا ۔

یہاں پہنچنے پر ہمارا استقبال کیا گیا اور ہم لوگ بارگاہ کی زیارت کیے اور مزار سے متصل ان کی تاریخی خانقاہ کا دورہ کیااور اس بارگاہ کے متولی حضرت خواجہ محمد شرف الدین جامی صاحب اور دیگر علمائے اہل سنت سے ملاقات و تبادلۂ خیال ہوا ۔

یہاں پر یہ بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ کے آباء و اجداد نے کربلا کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔یہ خانقاہ میں ہمایوں بادشاہ بننے سے پہلے چلہ کشی کیے ۔

اس کے بعد ہم لوگ دوپہر کے کھانے کے لیے قریب میں ہوٹل چلے گئے۔ واپسی پر شہر مشہد میں واقع صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ہرثمہ ابن ایون رضی اللہ عنہ جو خواجہ ربی کے نام سے معروف ہیں ، ان کی بارگاہ جوعظیم وسیع و عریض اور عالی شان ہے ۔ وہاں کی زیارت کیے ۔

اس کے بعد ہم نے ہزار سال قبل کے عارف و صوفی حضرت حکیم میر مؤمن رح کے مزار جو شہر مشہد میں گنبد سبز کے نام سے مشہور ہے ، وہاں کی زیارت کی اور وہاں سے سیدھا بارگاہِ مشہدِ مقدس واپس آئے۔

اس کے بعد ہم لوگ مشہد کی بارگاہ حضرت سیدنا امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کی زیارت کو تشریف لائے جو بہت بڑی وسیع و عریض ہے۔

یہاں پرشاندار انتظامات دیکھنے میںآئے ۔ گیٹ سے تقریباً ایک کیلو میٹر اندر جانے پر روضۂ حضرت سیدنا امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے روضۂ مبارک تک پہنچے اور وہاں پر روضہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ بڑی مشکل سے زیارت ہوئی ۔ کیوں کہ بارگاہ میں بہت سارا ہجوم موجود تھا۔

بارگاہ کی چاروں طرف بڑے بڑے سولہ صحن موجود ہیں اور اسی میں سے ایک بہت بڑا ہال ہے ، جس میں تقریباً دس ہزار اسکوائر فٹ علاقہ ہے ۔

بارگاہ کے احاطہ میں کتب خانہ بھی موجود ہے ، جوعالمِ اسلام کا عظیم الشان کتب خانہ مانا جاتا ہے۔ اس میں موجود تقریباً 14 ہزار قرآن شریف کے قلمی نسخے ہے اور ایک لاکھ سے زائد دینی کتابیں عربی اور فارسی کے قلمی نسخے موجود ہیں۔

اس کے علاوہ اسلامی طبع شدہ کتابوں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے ، جو ساٹھ زبانوں میں موجود ہیں۔ بہت سارے قرآن کریم کے نسخے آبِ زر (سونے کے پانی) سے لکھے گئے ہیں ، اس کو دیکھنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی ، جو خلفائے راشدین ،اہل بیت، صحابہ اور بزرگانِ دین کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے ہیں اور وہیں پر ایک پورا قرآن شریف ایک ہی صفحہ پر لکھا ہوا تھا ، دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔

اسی بارگاہ کے احاطہ میں بہت بڑا میوزیم بھی موجود ہے ، جس میں بہت ساز و سامان اور شاندارپینٹنگس ہیں۔

بارگاہ کے لنگر خانہ میں ہم کو کھانا کھانے کا موقع ملا ہے۔ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ یہاں کے لنگر خانے میں کھانے کے لیے بڑی بڑی شخصیتوں کو بھی موقع نہیں ملتا ہے۔ یہ بارگاہ کے جو انتظامات ہیں بہت عمدہ ہیں۔

اس بارگاہ میں صفائی کا خاص انتظام کیا گیا ہے اور تقریباً ہر جگہ قالین بچھے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور پینے کے ٹھنڈے پانی کا بھی جگہ جگہ انتظام کیا ہوا ہے اور ٹرسٹ کی جانب سے بہترین انتظامات دیکھنے میں آئے ہیں۔

اگلے دن یعنی 16 جولائی 2018 بروزِ پیر کی صبح ہم لوگ ناشتہ کے بعد میامی روانہ ہوئے ، جہاں پر امام زادہ حضرت سیدنا یحییٰ ابن زید شہید ابن امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی مزار ہے، جو حضرت سیدنا زیدمظلوم شہیدرحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے ہیں اور حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پوتے ہوتے ہیں۔ یہ میامی ، مشہد سے تقریباً 120 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔

یہ بالکل ترکمنستان یعنی سابقہ روس کی سرحد پر واقع ہے اور آپ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ اور اس ناچیز کے جد امجد ہوتے ہیں اور سبھی زیدی سادات آپ ہی کی اولادمیں سے ہیں۔

وہاں سے واپس ہوٹل آکر لنچ کرکے ہم لوگ شہر مشہد کے مضافات میں واقع تاریخی شہر طوس ،خراسان روانہ ہوئے،
جہا ں پر حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (ابوحامد الغزالی) کی مزار کی زیارت سے مشرف ہوئے ، جو ایک بڑے شاندار باغ میں موجود ہے اور آپ تصوف کے بہت بڑے بزرگ تھے اور آپ احیاء علومِ دین اورمکاشفۃ القلوب جو تصوف کی مشہور و معروف کتابیں مانی جاتی ہیں ، کے مصنف ہیں۔ آپ کی مزار کھلے آسمان کے نیچے ہے۔

مزار کے پاس ایک بہت بڑی گنبد میں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ اور مدرسہ ہے۔ ہم نے حکومتِ ایران سے یہاں پر ایک اچھی خوبصورت گنبد تعمیر کرنے کی گذارش کی ۔

واپسی میں ہم لوگ مشہد کے مضافات ترغبہ میں واقع حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے سب سے دو چھوٹے فرزندان امام زادے حضرت ناصر ابن موسیٰ کاظم اور دوسرے حضرت یاسر ابن موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہما کی بارگاہ کی زیارت کی ۔

اگلے دن 17 جولائی 2018ء بروزِ منگل ہم لوگوں کا نیشا پور جانے کا پروگرام تھا ، لیکن بارگاہ حضرت امام موسیٰ رضا علیہ السلام کے متولی حضرت آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے ارادہ کی وجہ سے ملتوی ہوگیا ۔

نیشا پور میں حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اور عمر خیام جو فارسی کے مشہور شاعر کی مزارات کی زیارت کرنے والے تھے ، لیکن ہم اس سعادت سے محروم رہے اور متولی صاحب سے بھی ملاقات نہیں ہوسکی ، کیوں کہ وہ تہران سے واپس نہیں آسکے۔

اس کے بجائے ہم لوگ مشہد میں بارگاہ حضرت سیدنا امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کی زیارت کیے اور قرآن اگزیبیشن اور میوزیم کا دورہ کیا اور وہاں سے ہوٹل آکر ہم لوگ تہران کے لیے مشہد ایرپورٹ روانہ ہوئے اور تہران میں رات کے 9 بجے ہوٹل پہنچے اور عشائیہ سے فارغ ہوکر ہم لوگ ہوٹل میں قیام کیے۔
18 جولائی بروز چہار شنبہ ناشتہ کے فوری بعد حضرت آیت اللہ تسخیری صاحب جو صدرنشین سپریم کونسل آف ورلڈ فورم ہے ، ان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں پر سابقہ صدر ایران احمدی نجاد کے دور کے وزیر امور خارجہ ڈاکٹر منوچیر متکی صاحب بھی موجود تھے۔

ان سے تفصیلی ملاقات اور تبادلۂ خیال ہوا ۔ اس کے بعد ہم لوگ پھر ایک اور میٹنگ ڈاکٹر شیخ الاسلام جوڈپٹی آف انٹرنیشنل افیر آف ورلڈ فورم ہے ان سے ملاقات کیے اور تقریباً ایک بجے تک وہیں پر رہے۔

اس کے بعد پھر ہم لوگ ہوٹل واپس آکر لنچ کیے اور پھر چار بجے دوسری میٹنگ حجۃ الاسلام آیت اللہ محسن قمی ، جو اسلامیہ جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنای کے بین الاقوامی امور کے ڈائرکٹر جنرل و مشیر خاص ہیں ، جن سے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنای کے دفتر میں ملاقات ہوئی ۔ وہاں سے ہوٹل واپس آکر آرام کیے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر شیخ الاسلام کی جانب سے عشائیہ کا اہتمام کیا گیاتھا۔

19 جولائی بروزِ جمعرات ہم لوگ صبح 7 بجے قم روانہ ہوئے ۔ قم پہنچنے کے بعدہم لوگوں نے حضرت فاطمہ معصومہ بنتِ امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے روضہ پر حاضری دیے اور وہاں سے امام زادہ حضرت موسیٰ المبرقع رضی اللہ عنہ اور امام زادہ حضرت محمد الجواد رضی اللہ عنہ ابن حضرت موسیٰ رضا علیہ السلام اور وہیں پر40 امام زادوں کی بارگاہ پر حاضری دینے کا موقع ملا ۔حضرت موسیٰ المبرقع رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام موسیٰ رضاؓ کے پوترے ہوتے ہیں حضرت سیدنا امام محمد تقیؓ کے صاحب زادے ہوتے ہیں۔

آپ دنیا کے سارے رضوی حضرات کے جد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد شہر قم کے دو عظیم دینی مدارس مدرسہ فیضیہ اور مدرسہ جامع مصطفی کا دورہ کیا اوروقت کی کمی کی وجہ سے ان مدارس کے علماء سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا۔

اس دورہ کے دوران یہ وفد ایران کے جیدشیعہ اور اہل سنت و الجماعت کے علماء و مشائخین سے ملاقات کیے۔ وہاں سے ہم لوگ قم میں ایک میٹنگ جو آفس آف دی ورلڈ اسمبلی فار پراکسی مٹی امانگ اسلامک اسکول آف تھاٹ کے صدر اعلیٰ جناب آیت اللہ محمد محسن اراکی جو سکریٹری جنرل ورلڈ فورم بھی ہیں ان سے ملاقات کئے ۔

وہاں سے ہم لوگ دوپہر کا کھانا ہوٹل میں کھائے اور وہاں سے سیدھا صوفی آباد سمنان جہاں پر حضرت علاء الدولہ سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی بہت بڑی بارگاہ ہے ، کی زیارت کیے اور یہ اشرفی خانوادہ کے بزرگ(کچھوچھہ) کے استاذِ محترم ہیں۔

یہاں پر قریب کے آٹھ دس ایرانی حضرات زیارت کے لیے آئے ہوئے تھے۔

ہم لوگ زیارت کرکے نکل رہے تھے تو وہ لوگ ہمیں چائے پلائے اور ان میں سے ایک خاتون نے پوچھاکہ آپ کے گروپ میں کوئی کشمیر سے ہے کیا اور حضرت سید علی ھمدان رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ سے ہے کیا ، حضرت ھمدان رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت علاء الدولہ سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی ماموں ہوتے ہیں۔

وہ خاتون نے ہمارے ایرانی گروپ لیڈرسے فارسی زبان میں بات کرکے فرمایا کہ تین دن سے میرے خواب میں یہ بات آرہی تھی کہ ہندوستان سے کوئی وفد حضرت سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آنے والا ہے ،

اس میں کشمیر کے ایک صاحب جو حضرت سید علی ھمدان رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ سے ہیں اور ان سے بیعت لے لیں تو ہمارے گروپ لیڈر نے مولانا خورشید قانون گو کشمیر ی صاحب کی نشاندہی کی ،

جو فارسی میں کئی اشعار سنا رہے تھے ، تو خاتون بہت خوش ہوئیں اور ان سے بیعت کا شرف حاصل کیں اور ہم سب کو ایرانی حضرات گھر چلنے کے لیے اور عشائیہ کے لیے اصرار کررہے تھے ، لیکن ہم کو واپس تہران بہت دور یعنی تقریبا تین سو کیلو میٹر آنا تھا ، اس لیے ہم لوگ وہاں سے نکل گئے۔

رات دیر گئے واپس تہران میں ہوٹل پہنچ گئے۔

20 جولائی بروزِ جمعہ ہم لوگ ناشتہ کے بعد گیلان میں جلا ضلع صومہ سراتشریف لے گئے ، جو تہران سے 360 کیلو میٹر پر واقع ہے ۔

وہاں کا راستہ بہت خوبصورت ہے ۔ یہاں پر حضرت سید عبدالقادر جیلانی غوث اعظم دستگیر رحمۃاللہ علیہ کی ولادت کا مقام ہے اور اسی جگہ پر آپ کا گھر ہے ،

جہاں پر آپ کی 18 سال تک پرورش ہوئی تھی اوراسی مقام پر آپ کی والدہ محترمہ حضرتہ سیدۃ النساء امّ الخیرفاطمہ رضی اللہ عنہا کی مزار مبارک موجود ہے۔ یہ بہت پرانا گھر میں واقع ہے۔

یہاں پر یعنی صومہ سرا پر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ جب ہم غوث اعظمؓ کی ولادت کے مقام کو ڈھونڈتے ہوئے راستے میں پوچھ رہے تھے تو ایک صاحب روڈ کے چوراستے پر اپنی کار روک کر آئے اور کہنے لگے میرے ساتھ آئیے ۔

ہم لوگ پریشان ہوگئے ، کیوں کہ ہم سے بات کیے بغیر وہ شخص ہم کو ان کی گاڑی فالو کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں اور ہم ان کی گاڑی کے پیچھے تقریباً ایک کلو میٹر تک چلتے گئے۔

وہ ایک پرانے گھر کے پاس گاڑی روک دیے اور ہم لوگوں کو گاڑی سے اترنے کے لیے کہا ۔ ہم لوگ گاڑی سے اترنے کے بعد سیدھا روڈ کے بازو میں جو گھر ہے اس میں لے گئے اور ہم سب سے گلے مل کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

وہ کہنے لگے کہ مجھے دو گھنٹوں سے حکم ہورہا تھا کہ چوراستہ پر جاؤ اور کوئی مہمان آرہے ہیں انہیں لے آؤ ۔ ہم بہت خوش ہوگئے اور اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کیے ، کیوں کہ ہم لوگ بہت اصرارو کوشش کرکے گیلان کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ گیلان ہمارے پروگرام میں نہیں تھا۔

بہرحال یہ سفر کافی خوشگوار تھا ۔

قریب میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے نانا حضرت عبداللہ سومہ ای رضی اللہ عنہ کی مزار کا مقام جہاں پر ایک درخت ہے ، جو روڈ کے بالکل بازو میں ہے۔ وہاں بھی زیارت کا شرف حاصل ہوا ، لیکن مزار بنی ہوئی نہیں ہے۔

حضرت غوث اعظم رحمۃاللہ علیہ کے والد محترم حضرت سید ابو صالح موسیٰ حسن (جنگی)رضی اللہ عنہ کی مزار وہاں سے تقریباً چالیس کلو میٹر پر تھی ، لیکن ہم لوگوں کے پاس ٹائم نہ رہنے کی وجہ سے جا نہ سکے ،

کیوں کہ ہمیں رات تہران لوٹنا ضروری تھا ۔ یہاں کے راستے بہت خوبصورت ہیں ، شاندار بریجس اور کافی بڑے ہائی وے کی روڈس سے گذرنا پڑتا ہے اور ندیاں بھی روڈ کے قریب دکھائی دیتے ہیں اور اس کے آگے بہت بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔

گیلان سے پہلے یہ پہاڑ اتنے خوبصورت نہیں ہیں جتنے جیلان کے قریب پہاڑیں خوبصورٹ اور ہرے بھرے نظر آتے ہیں اور راستے میں کئی زیتون کے باغ تقریباً 100 کیلو میٹر تک روڈ کی دونوں جانب ہیں اور کئی زیتوں کی دکانیں بھی موجود ہیں۔

ہم لوگ وہاں سے نکلنے کے بعد راستے میں رک کر دوپہر کا کھانا ایک ہوٹل میں کھائے جس میں زیتون کا آچار بہت شاندار تھا۔رات دیر گئے واپس تہران میں ہوٹل پہنچ گئے۔

21 جولائی بروز ہفتہ صبح 11 بجے ہماری میٹنگ حجۃ الاسلام یونسی جو ایران کے صدر روحانی کے نائب امورِ مذہبی اور مشیر خاص بھی ہیں ، ان سے ملاقات ہوئی۔ اسی میٹنگ میں ایک اہلسنت والجماعت کی پروفیسر، جو فقہ حنفیہ و فقہ شافعیہ کی تعلیم ، تہران یونیورسٹی میں دیتے ہیں ،

اور آپ کا تعلق جیلان سے ہے اور آپ حضرت غوث اعظمؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہاں پر سنت الجماعت اور شیعہ حضرات میں کوئی تفرقہ نہیں ہے اور اس بارے میں کافی معلومات فراہم کئے۔ اس کے بعد ان کی آفس پر دوپہر کا کھانا کھائے۔

کھانے کے فوری بعد ہم لوگ سیدھا ہوٹل آگئے اور سامان ساتھ لے کر ہوٹل سے پانچ بجے حضرت شہر بانو رضی اللہ عنہ کی روضہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے ، جو پہاڑ کی بہت بلندی پر واقع ہے۔

حضرتہ شہربانو رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی پہلی اہلیہ محترمہ ہیں اور حضرت سیدنا امام زین العابدینؓ کی والدہ محترمہ ہیں۔

حضرت شہربانو ایران کا آخری بادشاہ یذدگر کی صاحبزادی ہیں۔ جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا جب ایران کی شہزادی بھی مال غنیمت میں لائی گئی، اور حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا یہ توشہزادی ہے اور ان کے لئے موزوں سیدناامام حسینؓ ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت سیدنا علیؓ سے فرمایا یہ شہزادی آپ کے شہزادے کے لئے مناسب ہے۔

اور آپ نے حضرت سید امام حسینؓ سے آپ کی شادی فرمائیے۔ واقع کربلا کے وقت حضرت امام حسینؓ مدینہ شریف سے عراق کا رخ کیا، تو اپنی اہلیہ جناب شہربانو کو ایران روانہ کردیا اور انہوں نے شہر رے میں آکر سکونت اختیار کی اور وہیں پر آج آپ کا روضہ موجود ہے۔

اس پہاڑ پر بس بہت مشکل سے پہنچتی ہے ، کیوں کہ پہاڑ بہت اونچا ہے اور اس کے بعد کافی اونچائی تک پیدل جانے کا راستہ ہے ، جو روضۂ حضرت شہر بانو رضی اللہ عنہاتک جاتا ہے ۔

ہم نے وہاں روضہ کی زیارت کی اور پھر اس پہاڑ سے نیچے اترے اور بس کے ذریعہ وہاں سے واپسی پر شہر ری ہوتے ہوئے تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایرپورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔

یہ ’’ری‘‘ بہت بڑے اسلامی بزرگانِ دین جید علمائے کرام حضرات کا شہر ہے ، جیسا کہ حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ (جو التفسیر الکبیر ‘‘ کے مصنف ہیں۔ ) شیخ الاسلام حضرت فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت محمد ابن زکریا رازی رحمۃ اللہ علیہ ، محدث ابن ابی حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ اور ہارون رشید وغیرہ یہی کے ہیں۔

تہران ایرپورٹ کے قریب ہم نے حضرت آیت اللہ خمینی کی شاندار گنبد کی باہر سے زیارت کی ، کیوں کہ ہمارے پاس بالکل ٹائم نہیں تھا ، اس لیے اندر نہ جاسکے ، سیدھا ایرپورٹ آگئے۔

ایرانی لوگ بہت اچھے اور نرم طبیعت کے حامل خوش مزاج ہیں اور وہ بہت مہمان نواز لوگ ہیں ۔ ہم نے لوگوں سے سنا اور دیکھا بھی ہے کہ وہاں شیعہ سنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ایرانی حضرات بزرگوں سے کافی ادب و احترام اور محبت سے پیش آتے ہیں۔ ایران کی پوری آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ میں اہل سنت و الجماعت کی ۱۰ فیصد یعنی ۸۰ لاکھ آبادی ہے۔ وہاں پر اہل سنت و الجماعت کو سرکاری ملازمت میں بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ ایران میں جملہ 70,000مساجد ہیں۔

جن میں 17000مساجد سنیوں کے ہیں، جہاں پر جمعہ کی نماز اور روزانہ پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ ایران میں 5000سنیوں کے دینی مدارس ہیں اور 24پرنٹنگ پریس ہیں جہاں پر 4000سے زیادہ اہل سنت کی معتبر دینی کتب کا ترجمہ و تفسیر کو شائع کیا گیا ہے۔

سنی حضرات ایران کی پارلیمنٹ میں منتخب ہوکر آتے ہیں اور سنی لوگوں کو ایران کی گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ، نظم ونسق اور وہاں کی فوج میں بھی ملازمت ان کی آبادی سے زیادہ ہے۔

ایران کے کھانے بہت لذیز ہوتے ہیں اور تقریباً ہر کھانے میں مٹن، چکن اور مچھلی کا شیخ کباب ہوتے ہیں۔ ایران میں زعفران، زیتون اور ڈرائی فروٹس جیسے بادام ، پستہ، اخروٹ، کاجو، وغیرہ کافی سستے دام میں دستیاب ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے 1979، خواندگی کی شرح 22فیصد اور اب جو100فیصد ہے اور یونیورسٹی اور میڈیکل کالجس کی تعداد20سے بھی کم تھی اور آج 2000سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ بات سن کر حیرت ہوگی کہ ایران کا بین الاقوامی مالی اداروں سے بیرونی قرض موجود نہیں ہے۔

ایران میں 60فیصد لیڈیس ریسرویشن ہے اور دواخانوں کا بہت بڑا نٹ ورک قائم ہے اور 100 فیصد آبادی کے لئے ایرانی گورنمنٹ کی جانب سے ہیلتھ انشورنس فراہم ہے۔ اور آٹو موبائیل انڈسٹریز یعنی کہ کارس، بسس، ٹرکس 100 فیصد ایران میں ہی تیار کی جاتی ہے۔

بہت بڑی تعداد میں ایران کے ہمسایہ ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں ایران کے ہاسپٹل میں اپنا علاج کروانے آتے ہیں۔ اور یہ ایران کے آمدنی کابہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایران کا تمام بڑے شہروں میں انڈرگراؤنڈ ریلوے نٹ ورک قائم ہے اور خوبصورت ایران کے پایہ تخت تہران میں 7 زیرزمین ریلوے نٹ ورک فی الحال کام کررہے ہیں۔

ایران کا شہری ٹریفک تقریباً میٹرو کے ذریعہ انجام پاتے ہیں اور تمام شعبہ حیات میں خواتین کا نمایا کردار محسوس کیاجاتا ہے۔ ایران میں روٹی گھروں میں نہیں پکائی جاتی ہے، بلکہ ہر محلہ میں نان بائی وہاں پر مختلف اقسام کی روٹی پکائی جاتی ہے جو انتہائی سستی قیمت میں عوام کو فراہم کیاجاتاہے۔

اور اس کے لئے حکومت ایران کی بہت بڑی سبسڈی دی جاتی ہے۔ اور اس کے علاوہ بجلی ، پانی ، گیاس، اور پٹرول بھی ایران میں کافی سستا ہے اور ان تمام اشیاء پر حکومت سبسیڈی فراہم کرتی ہے۔ پورے ایران بھر میں ہائی ویز کا بہت بڑا نٹ ورک قائم ہے اور انقلاب اسلام سے قبل ایران میں صرف تین ریلوے لائن موجود تھے، جو چند شہروں کو ہی کور کرتے تھے اور پورے ایران کے شہر آج ریلوے سسٹم سے منسلک ہوچکے ہیں۔

تہران بہت خوبصورت شہر ہے اور وہاں کے لوگ خوش و خرم دکھائی دے رہے تھے۔ ایران کی معیشت کافی اچھی ہے اور وہاں کا انفراسٹرکچر یعنی روڈس ، بریجس ، انڈر گراؤنڈ ریلوے ، سرکاری آفسس ، کالجس ، یونیورسٹیز بہت اچھے اور معیاری ہیں۔ آپ جہاں بھی جائیں گی ، آپ کو صفائی نظر آئے گی۔

ہمارے سفر میں پروفیسرسید علیم اشرف جائسی صاحب کے رہنے کی وجہ سے سوالات و جوابات چلتے رہے اور چلتے پھرتے اور راستے میں کئی باتوں پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا اور ہم سب حضرات ان سے مستفید ہوتے رہے ہم لوگ ۲۲ جولائی بروز اتوار صبح کے تقریبا ۳ بجے دہلی ایر پورٹ پر پہنچے اور وہاں سے سب لوگ اپنے اپنے مقامات کیلئے روانہ ہو گئے۔

میں اور ڈاکٹر جائسی صاحب ایر پورٹ کے اندر مسجد میں فجرکی نماز ادا کی اور ۳۰۔۷بجے کی فلائٹ کے ذریعہ حیدرآباد کے لئے روانہ ہوئے اور صبح کے۳۰۔۹بجے حیدرآباد کے ایر پورٹ پر پہنچے اور کار کے ذریعہ اپنے اپنے گھر پہنچے۔

 

ہم لوگوں نے ہماری جتنی بھی میٹینگیں ہوئیں اس میں حکومت ایران سے چند گذارشات کیں جوحسب ذیل ہیں:

۔ تصوف کے فارسی میں جتنی کتابیں ہیں انھیں اردو میں ترجمہ کرواکر شائع کرائیں تاکہ اس سے اردو والے بھی مستفید ہوسکے ہیں۔

۔ فارسی زبان کے کلاسس ایرانی قونصل خانہ میں منعقد کروائیں تاکہ لوگ فارسی زبان سیکھ سکیں۔

۔ حضرت امام غزالی ؒ کی مزار جو کھلے آسمان کے نیچے ہے ، وہاں پر ایک عالی شان اور خوبصورت گنبد کی تعمیر کی جائے۔

ہمارے سفر کے دوران حکومت ایران کی جانب سے ہوٹل، ٹرانسپوڑٹ، کھانے وغیرہ کا شاندار انتظام کیا گیا۔

آخر میں ہم لوگ حکومتِ ایران کے بین الاقوامی عالمی ادارہ اتحادبین المسلم جہاں تہران، ایران کا بے حد شکرگذار ہیں جن کی دعوت پہ ہمارا وفد ان تمام مقامات کا دورہ کیا

از سید شاہ سمیع اللہ حسینی چشتی بندہ نوازی
نبیرہ حضرت خواجہ سید محمد حسینی بند ہ نواز گیسودرازؒ وجانشین حضرت الحاج سید شاہ نوراللہ حسینی ؒ و
سجادہ نشین درگاہ حضرت سید ملک شاہ حسینی رحمۃاللہ علیہ شاہ راج پیٹ حیدرآباد
(مشیرقانونی کل ہندجمعیۃ المشائخ)