ایران پر تحدیدات

دشمن کا دشمن اپنا دوست کی کہاوت پر چلنے والے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران پر معاشی تحدیدات نافذ کرکے امریکہ کیلئے کئی دشمن پیدا کرنے کی خرابیاں کو اختیار کیا ہے تو آنے والا وقت مسائل کھڑا کرے گا۔ ایک ملک پر کسی ملک کی معاشی تحدیدات جارحیت پسندانہ پالیسی کا مظہر ہوتا ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ نے جو کچھ تحدیدات عائد کی ہیں، اس سے تہران کے ساتھ انفرادی طور پر معاملت کرنے والے ملکوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی اجارہ دارانہ پالیسیوں کو نافذ کرکے یہ سمجھا ہے کہ دیگر ممالک ان کی باتوں پر عمل کریں گے، اگرچیکہ امریکہ نے 8 ممالک کو ایران کا تیل درآمد کرنے کی عارضی منظوری دی ہے۔ پٹرول یا ایندھن کا مسئلہ اس وقت ساری دنیا کا نازک موضوع ہے۔ ایران کے تیل کی فروخت کو نشانہ بنانے کا مقصد تیل کی قیمتوں میں کمی لانے کی کوشش کا ادعا کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے تیل کی فروخت کو صفر کی حد تک لاکر دَم لیں گے۔ اس سے قبل ماہ مئی میں ٹرمپ نے ایران پر کچھ پابندیاں دوبارہ لگائی تھیں اور اب دوسرے مرحلے کی یہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ امریکہ کے ان اقدامات سے کسی اچھے نتیجہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ خود امریکہ کیلئے یہ فیصلہ مسائل کو دعوت دے گا۔ معاشی تحدیدات کے تعلق سے عالمی سطح پر معاشی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ امریکہ اپنی دھونس جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا۔ ایران پر معاشی تحدیدات بھی اس دھونس کا حصہ ہے۔ معاشی تحدیدات کو ایک لحاظ سے کسی ملک کے خلاف بزدلانہ کارروائی سے تعبیر بھی کیا جارہا ہے یا اسے ایک نرمی والی کارروائی بھی سمجھی جاتی ہے۔ عملاً ایسی کارروائیوں کو ایک طاقتور اور متمول ممالک کا غریب یا ترقی پذیر ملکوں کے خلاف جارحانہ حرکت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ بڑی طاقت یہی چاہتی ہے کہ سامنے والی طاقت اس کی مطیع بن کر رہے، وہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے بڑی طاقت کے وقار و پالیسی کو دھکہ پہونچے۔ تحدیدات کا عمل بھی بالادستی حاصل کرنے کی تعریف میں آتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اکثر برعکس بھی نکلتا ہے۔ شمالی کوریا ہو یا کیوبا اور اب ایران پر تحدیدات کے نتائج بھی برعکس ہی نکلیں گے۔ ایران کے نیوکلیئر معاہدہ کو ختم کرنے والے صدر امریکہ نے معاہدہ کے ان تمام شرکاء سے ہٹ کر قدم اٹھایا تھا جبکہ 6 ملکوں کے اتحاد نے ہی ایران سے نیوکلیئر معاہدہ کیا تھا۔ ان ممالک میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس نے بھی دستخط کئے تھے اور اس کو اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی جانب سے بھی توثیق حاصل ہوچکی تھی۔ ان تمام ممالک سے ہٹ کر ٹرمپ کا فیصلہ تنقید کا باعث بھی بنا ہے۔ ایران پر ایک ایسے وقت معاشی تحدیدات عائد کئے گئے جبکہ اس ملک نے نیوکلیئر معاہدہ کی پابندی کرنے میں دیانت دارانہ کوشش کی تھی۔ صدر ایران حسن روحانی نے امریکہ کی اس اقدام کو معاشی جنگ کے مترادف قرار دیا اور عہد کیا کہ وہ عالمی مارکٹ میں اپنے تمام تیل کی فروخت جاری رکھے گا۔ امریکہ کی تاریخ میں شاید یہ پہلا صدر ہے جو وائیٹ ہاؤز میں داخل ہوکر قانون اور بین الاقوامی روایات کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ایران کا تیل خریدنے والے ملکوں میں ہندوستان سب سے بڑے خریدار ملکوں میں سے ایک ہے۔ چین کے بعد ہندوستان ہی ایران سے زیادہ تیل خریدتا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے جن 8 ملکوں کو ایران سے تیل خریدنے کی رعایت دی ہے، اس میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ یوروپی یونین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران کے اندر اپنے جائز تجارتی روابط کا تحفظ کرنے کا عہد کیا ہے تو پھر امریکہ کے معاشی تحدیدات کا منفی اثر کس ملک کے حق میں آئے گا، یہ غور طلب ہے، اس لئے امریکہ کے بعض معاشی ماہرین نے ٹرمپ کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ایک طرح سے ٹرمپ اپنے حلیف ملکوں کو نقصان پہونچا رہے ہیں اور دیگر مخالف امریکہ کو فائدہ پہونچانا چاہتے ہیں ۔