ایران میںحکومت مخالف احتجاج‘کثیر تعداد میں طلبہ شامل

پاسداران انقلاب کا سخت کارروائی کا انتباہ ‘ تاحال 2ہلاک ‘ خامنہ ای کی برطرفی کا مطالبہ ‘احتجاج کو امریکہ کی تائید
تہران ۔ 31ڈسمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب نے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد کو خبردار کیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے پر مظاہرین سے ’سختی سے نمٹا‘ جائے گا۔ایران میں تین روز قبل پست معیارِ زندگی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے لیکن پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب ان مظاہروں میں سیاسی نعرے لگائے جا رہے ہیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ایران میں عوام کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور کرپشن کے خلاف ہونے والے یہ احتجاج سنہ 2009 میں اصلاحات کے حق میں ہونے والی ریلی کے بعد سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے۔ ان مظاہروں اب تک دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی احتجاج کی ویڈیو میں آگ لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ایران کے مختلف شہروں میں ہونے والے بعض مظاہروں میں شریک افراد نے ملک کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ایران میں پاسدارانِ انقلاب کا شمار بااثر افواج میں ہوتا ہے اور ملک میں اسلامی نظام کے تحفظ کے لیے سپریم رہنما کے ساتھ اْن کے گہرے روابط ہیں۔پاسدارانِ انقلاب کے جنرل اسمائیل کوہساری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’عوام اگر قیمتیں زیادہ ہونے پر سڑکوں پر نکلے ہیں تو انھیں پھر اس طرح کے نعرے نہیں لگانے چاہیے اور نہ ہی سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کرنا چاہیے۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام جاری رہنے پر مظاہرین کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔مظاہرین نے ملک کے وزیر داخلہ عبدالرحمن رحمانی فضلی کی جانب سے ’غیر قانونی اجتماعات میں شرکت نہ کرنے کی‘ تنبیہ کو بھی بظاہر نظر انداز کر دیا ہے۔ تمام شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ایک چیز مشترکہ ہے کہ وہ سب ملک میں ’مولویوں کے نظام‘ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔مظاہرین ایران کی بیرون ملک مداخلت پر بھی ناراض ہیں اور اس دوران مشہد میں ’نہ لبنان، نہ غزہ، میری زندگی ایران کے لیے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی تمام تر توجہ ملکی مسائل کی بجائے خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔ایران میں حالیہ مظاہروں کا آغاز مشہد سے ہوا جہاں عوام خوراک کی قیمیت میں اضافے اور پست معیارِ زندگی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے بعد یہ پورے ملک میں پھیل گئے۔ایرانی عہدیداروںنے ان مظاہروں کا الزام انقلاب کے مخالفین اور غیر ملکی ایجنٹوں پر لگایا ہے۔مظاہروں کا آغاز بدعنوانی اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے ہوا تھا تاہم اب یہ احتجاج سیاسی نوعیت اختیار کر گیا ہیصدر روحانی ہی نہیں آیت اللہ خامنہ ای اور موجودہ نظامِ حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی ہے ایسے نعرے بھی لگائے گئے ہیں کہ ’لوگ بھوکے ہیں اور (نعوذ باللہ ) مولوی خدا بنے ہوئے ہیں‘ان مظاہروں میں ایران کی خارجہ پالیسی جیسے کہ لبنان اور غزہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف بھی جذبات کا اظہار کیا گیا ہیحکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد صدر حسن روحانی اور سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیںامریکہ کا کہنا ہے کہ ایران میں جاری مظاہروں کے بارے میں حکومتی ردِعمل پر دنیا بھر کی نظر ہے۔ صدر ٹرمپ کی پریس سیکریٹری سارہ ہکابی نے دعویٰ کیا کہ ایرانی عوام حکومت کی بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں۔ہفتہ کو ملک بھر میں حکومت کی تائیدمیں جلوس نکالے گئے۔خیال رہے کہ ایران میں جمعرات سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے ملک کے متعدد بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں جس کے بعد حکومت کے ہزاروں حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ شمالی ایران میں راشت اور مغرب میں کرمان شاہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ شیراز، اصفہان اور ہمدان میں مظاہرین کی تعداد کم ہے۔ دارالحکومت تہران میں چند افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے2009 میں ہونے والے احتجاج کے بعد سب سے زیادہ شدید احتجاج ہیں اور اس کے ذریعے عوامی بے چینی نظر آ رہی ہے