اہم قومی ادارے اور حکومت

کچھ اس انداز سے لینے لگا ہے وقت انگڑائی
امیرِ شہر کے آگے اندھیرا چھانے والا ہے
اہم قومی ادارے اور حکومت
نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ ملک میں تقریبا تمام ہی اداروں کی اہمیت اور ان کے اختیارات کو ختم کرتے ہوئے عملا تانا شاہی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس ملک کے دستور نے تمام اہم اداروں کی اہمیت اور ان کے فرائض کو واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔ جو لوگ ملک کے دستور کو مانتے ہیں ان کیلئے دستور کے ہر حکم کو تسلیم کرنا ضروری ہے ۔ دستور ہند میں جہاں حکومت کی ذمہ داریاں اور فرائض بیان کردئے گئے ہیں وہیں شہریوں کے حقوق کی بھی تشریح کردی گئی ہے ۔ اسی دستور میں جو اہمیت کے حامل ادارہ جات ہیں ان کی ذمہ داریوں اور ان کی آزادی کو بھی بیان کردیا گیا ہے ۔ ایسے ہی اداروں میں ملک کی عدلیہ کو مرکزی مقام حاصل ہے ۔ عدلیہ کے کام کاج میںکسی طرح کی مداخلت نہیں ہوسکتی ۔ الیکشن کمیشن ایک اور با اختیار اداراہ ہے ۔ سی بی آئی حالانکہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے لیکن اس کے کام کاج میں بھی مداخلت کا کسی کو اختیار حاصل نہیںہے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا بھی ایک ایسا ادارہ ہے جس کے سامنے ملک اور ملک کے عوام کی معاشی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تیار کرنے اور ان پر عمل آوری کرنے کا نشانہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کئی شعبہ جات ہیں جن میں حکومتوں کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ حالانکہ حکومت ہر کسی کے کام کاج پر نظر رکھنے کی ذمہ دار ضرور ہوتی ہے لیکن کسی کے کام کاج میں مداخلت کا اس کو حق حاصل نہیں ہے اور یہ بات دستور میں پوری طرح سے واضح کردی گئی ہے ۔ نریندر مودی حکومت تاہم ایسالگتا ہے کہ دستور کی گنجائش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے عزائم اور منصوبوں کو پورا کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔اسے نہ قوانین کی پرواہ ہے اور نہ ہی دستوری فرائض کو وہ خاطر میں لانے کو تیار ہے ۔ شائد اسی لئے بی جے پی کے وزرا میں کچھ نے یہ بیان دیا تھا کہ ان کی حکومت دستور ہند میں تبدیلی لانا چاہتی ہے ۔ اب باضابطہ تبدیلی لانے کے موقف میں تو حکومت نہیں ہے لیکن وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے میں مصروف ضرور ہوگئی ہے ۔ راتوں رات سی بی آئی میں اعلی عہدیداروں کے تبادلوں کے بعد اب حکومت ریزرو بینک آف انڈیا کو نشانہ بنانے اور اس پر اپنا کنٹرول بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔
حکومت کو آئندہ چند مہینوں میں انتخابات کا سامنا کرنا ہے ۔ گذشتہ ساڑھے چار سال میں اس نے عوام کیلئے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ووٹ طلب کرسکے ۔ عوام کے ذہنوں میں بے شمار سوالات ہیں جن کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہے اور وہ سوالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہی نہیںہے ۔ وہ صرف اعلانات کرتے ہوئے عوام کو ایک بار پھر گمراہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ شائد اسی وجہ سے اس کی نظر ریزرو بینک کی رقومات پر ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ حکومت ان رقومات کا ایک خطیر حصہ حکومت کے اکاونٹ میں منتقل کردے تاکہ ان کے استعمال کے ذریعہ عوام کو بیوقوف بنانے اور انہیں کچھ دکھاوے کی مراعات دینے کا موقع مل جائے اور پھر وہ اقتدار حاصل کرلے ۔ جہاں جہاں حکومت کے اشاروں اور احکام پر عمل نہیں ہو رہا ہے وہاں ان اداروں کو حکومت نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہے اور ان اداروں کی دستوری اہمیت اور ان کی بالادستی کو بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے ۔ نریندر مودی حکومت دستوری اورقانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنے کو تیار نظر نہیں آتی اور وہ صرف اپنے منصوبوں اور عزائم کی تکمیل چاہتی ہے اوراس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ کتنے ہی اداروں کی اہمیت کو پامال کرسکتی ہے اور ان کی اہمیت کو گھٹاکر انہیں کٹھ پتلی بناسکتی ہے ۔
حکومت ایسا لگتا ہے کہ ملک میں تاناشاہی لانا چاہتی ہے ۔ ایک فرمان کہیں سے جاری ہوجائے اور سارا ملک اور اس کے ادارے سب اس کے تابع ہوجائیں۔ وہ من چاہے انداز میں کام کرے اور کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو ۔ یہ طریقہ کار ہندوستان کی جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک ہے ۔ ملک کے دستور کیلئے انتہائی مضر ہے ۔ ملک کے عوام کی امیدیں ختم ہوسکتی ہیں اور ایک طرح کے نراج کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس طرح کے عزائم اور منصوبوں کو ترک کرے اور دستوری و قومی اہمیت کے حامل اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے کی بجائے ان کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے ۔