اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام کا باہمی جذبۂ ادب و احترام

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کی مجلس میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے بیٹھنے کی ایک خاص جگہ تھی وہاں سے وہ صرف حضرت سیدنا عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے اُٹھا کرتے تھے ۔ حضرت سیدنا عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس اکرام سے نبی اکرم ﷺ کو بہت خوشی ہوا کرتی ۔ ایک دن حضرت سیدنا عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سامنے سے آئے اھیں دیکھ کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی جگہ سے ہٹ گئے حضور پاک ﷺ نے ان سے فرمایا ، کیا ہوا ؟ انھوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کے چچا سامنے سے آرہے ہیں ۔ حضور پاک ﷺنے حضرت عباس کی طرف دیکھا پھر مسکراتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہہ ہوکر فرمایا : یہ عباسؓ سامنے سے آرہے ہیں ، انھوں نے سفید کپڑے پہن رکھے ہیں لیکن ان کی اولاد ان کے بعد کالے کپڑے پہنے گی اور ان کی اولاد میں سے بارہ آدمی بادشاہ بنیں گے ۔ ( منتخب الکنز: جلد پنجم ص : ۲۱۱)
حضرت جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کے دادا ( جوکہ صحابی رسول ہیں ) رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب نبی اکرم ﷺ مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور پاک ﷺ کے دائیں جانب ، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بائیں جانب اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور پاک ﷺ کے سامنے بیٹھتے اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور پاک ﷺ کی راز کی باتیں لکھا کرتے تھے جب حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور وہاں حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہوتے ۔ ( منتخب الکنز جلد پنجم ص : ۲۱۴)

حضرت ابن شہاب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اپنے اپنے زمانۂ خلاف میں یہ معمول تھا کہ جب یہ حضرات سواری پر سوار ہوکر کہیں جارہے ہوتے اور راستہ میں حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوجاتی تو یہ حضرات (اکرام میں ) سواری سے نیچے اُترجاتے اور سواری کی لگام پکڑکر حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سات پیدل چلتے رہتے اور انھیں ان کے گھر یا ان کی مجلس تک پہنچاکر پھر ان سے جدا ہوتے۔ ( ابن عساکر کذا فی الکنز ج : ۷ ص :۶۹)
حضرت رباح بن حارث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں (کوفہ کے محلہ ) رحبہ میں ایک جماعت حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں آئی اور نھوں نے کہا : السلام علیک یا مولانا ( اے ہمارے آقا آپ پر سلامتی ہو ) حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا آپ لوگ تو عرب ہیں میں آپ کا آقا کیسے بن سکتا ہوں ؟ انھوں نے کہا : ہم نے غدیر خم کے دن حضور پاک ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں جس کا مولیٰ ہوں یہ (علی مرتضیٰؓ ) بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ لہذا آپ ہمارے مولیٰ ہوئے ۔ حضرت رباح کہتے ہیں یہ لوگ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے گیا اور میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ انصار کے کچھ لوگ ہیں جن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔ (بحوالہ حیاۃ الصحابۃ)
حضرت ابوعبداﷲ جدل رحمۃ اللہ کہتے ہیں میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انوھں نے مجھ سے فرمایا : کیا تم سب کے بیچ میں رسول اﷲ ﷺ کی شان میں بے ادبی کی جاتی ہے ؟ میں نے کہا : اﷲ کی پناہ سبحان اﷲ یا اس جیسا اور کوئی کلمہ میں نے کہا انھوں نے فرمایا : میں نے حضور پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے علیؓ کو برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا ہے ۔ ( اخرجہ احمد قال الھیشمی ، ج :۹ص :۱۳۰)

حضرت عروہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک دن حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے اتنے میں حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے اور انھوں نے منبر پر چڑھ کر کہا : ’’آپ میرے نانا کے منبر سے نیچے اُتر آئیں ‘‘ ۔ اس پر حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کہا یہ بات ہمارے مشورہ کے بغیر ہوئی ہے ۔ ( ابن سعد فی الکنز ج : ۳ ص :۳۲)
سیدنا امام حسین بن علی رضی اﷲ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں میں منبر پر چڑھکر حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ میرے نانا کے منبر سے نیچے اُترجائیں اور اپنے والد کے منبر پر تشریف لے جائیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے والد کا تو کوئی منبر نہیں یہ کہکر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مجھے اپنے پاس بٹھالیا۔ پھر وہ منبر سے اُترکر مجھے اپنے گھر لے گئے اور مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! آپ کو یہ کس نے سکھایا تھا ؟ میں نے کہا : کسی نے نہیں ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا : اگر آپ ہمارے پاس آیا جایا کریں تو بہت اچھا ہوگا ۔ چنانچہ میں ایک دن ان کے ہاں گیا تو وہ حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے تنہائی میں گفتگو کررہے تھے اور میں نے دیکھا کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما دروازے پر کھڑے ہیں انھیں بھی اجازت نہیں ملی ہے یہ دیکھ کر میں واپس آگیا ۔ اس کے بعد جب حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! اپ ہمارے پاس آتے کیوں نہیں ؟ میں ایک دن آیا تھا اور آپ مصروف تھے آپ کے صاحبزادے حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اجازت نہیں ملی وہ واپس ہوگئے تو میں بھی واپس ہوگیا ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں ۔ آپ عبداﷲ بن عمر ؓ سے زیادہ اجازت کے حقدار ہیں کیونکہ ہمارے سروں پر یہ جو تاج شرافت ہے یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے گھرانہ کی برکت سے دیا ہے اور پھر میرے سر پر حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے شفقتاً ہاتھ رکھا ۔ (الاصابۃ )

حضرت ابوالبختری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اہل جمل کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا وہ مشرک ہیں ؟ تو فرمایا : شرک سے تو وہ بھاگ کر آئے ہیں پھر پوچھا گیا کیا وہ منافق ہیں ؟ فرمایا منافق تو اﷲ کا بہت کم ذکر کرتے ہیں ( اور یہ لوگ تو اﷲ کا بہت ذکر کرتے ہیں ) ۔ پوچھا گیا پھر یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ ہمارے بھائی ہیں ۔ انھوں نے ہمارے خلاف خروج کیا ہے ۔ )( بیہقی )
حضرت کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے پاس آیا اور اس نے کہا آپ تمام انسانوں سے بہتر ہیں ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کیا تو نے حضور پاک ﷺ کو دیکھا ہے ؟ اُس نے کہا ہیں ۔ پھر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : کیا تو نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے ؟ اُس نے کہا : نہیں ، حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اگر تم کہتے کہ میں نے حضور پاک ﷺ کو دیکھا ہے تو پھر میں تمہیں قتل کردیتا اور اگر تم کہتے کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھا ہے تو میں تم پر حد شرعی جاری کرتا ( کیونکہ تم نے جو کہا ہے یہ بہتان ہے ، بہتان باندھنے کی سزا دیتا ) ۔ ماخوذ از حیاۃ الصحابۃ ۔