اگر ایک بچے کو گود بھی دے دیاگیا تو بھی پنچایت الیکشن میں نفاذ ہوگادوبچوں کا قانون۔ سپریم کورٹ

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے روزسنائے گئے اپنے فیصلے میں کہاکہ تیسرے بچے کو جنم دینے کے ساتھ ہی پنچایت الیکشن کا امیدوار نااہل قراردیدیاجائے گا۔واضح رہے کہ اڈیشہ کے قبائیلی سرپنچ نے دو بچوں کے قانون پر عمل کرنے کے اپنے تیسرے بچے کوگوددیدیاتھا۔

اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی جسٹس اس کے کاول اور کے ایم جوزف کی بنچ نے کہاکہ پنچایت راج ایکٹ کی منشاء اس شخص کو پنچایت الیکشن لڑنے سے روکنے کی پنچایت میں کوئی عہدہ حاصل کرنے سے روکتا ہے ‘ جس کے تین بچے ہونگے۔سی جے ائی کی قیادت والی بنچ نے کہاکہ اس قانون کا مقصد ایک خاندان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد پر قابو پانا ہے۔

نہ کہ ہندو اڈوپشن اور منٹنیس ایکٹ کے تحت ملنے والے فوائد پر اثر انداز ہونا ہے۔

واضح رہے کہ من موہن سنگھ مانجھی نے اس معاملے میں اڈیشہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیالنج کیاتھا۔دراصل ان کے تیسرے بچے کا جنم ہونے کے بعد نوپاڈا ضلع کی پنچایتمیں انہیں سرپنچ کے عہدے پر نااہل قراردیاتھا۔ ان کے دوبچوں کی پیدائش 1995اور1998میں ہوئی تھی۔

فبروری 2002میں وہ سرپنچ بنے تھے اور اس کے بعد اگست 2002میں ان کے تیسرے بچے کا جنم ہوا تھا‘ جس کے بعد انہیں سرپنچ کا عہدہ چھوڑ نا پڑا تھا۔ان کے وکیل پونت جین نے مثال پیش کرتے ہوئے مانجھی نے 1998میں اپنے پہلے بچے کو گود دے دیاتھا۔ہندو اڈپشن اینڈ منٹنیس ایکٹ کے تحت اگر کسی بچے کو گوددیدیا جاتا ہے تو وہ گود لینے والے خاندان کا فیملی ممبر بن جاتا ہے۔

اس طرح سے مانجھی دو بچوں کی قانون پر عمل کرتے ہوئے سرپنچ کے عہدے پر قائم رہنے کے اہل ہیں۔جن نے کہاکہ مانجھی بچے کے بائیولوجیکل والد ہیں مگر قانونی طور پران کے دو ہی بچے ہیں ‘ کیونکہ پہلے بچے کو انہوں نے دوسرے خاندان کو گود دیاتھا۔

اس معاملے میں بنچ نے کہاکہ ہمیں نہیں پتا کہ اس قانون کامقصد پنچایت اراکین اور سرپنچ کو پوری ہندوستان میں دوبچوں کی قانون کے تحت کام کرتے ہوئے رول ماڈل بنانا ہے یانہیں۔ مگر اہم طور پر یہ لگتا ہے کہ پنچایت الیکشن میں مقابلے کرنے والے امیدواروں کے بچوں کی تعداد کو دوپر ہی روکدینا چاہئے۔

وکیل جین نے کہاکہ اگر کسی شخص کو بیک وقت جڑواں یا تین بچے پیدا ہوجائیں تو کیاایسے فرد کو بھی الیکشن روکنے سے روکدیاجائے گا؟‘ ۔ جس پر بنچ نے کہاکہ ابھی اس طرح کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیںآیاہے لہذا ہم ایسا کوئی معاملہ ہمارے سامنے آنے کے بعد ہی اس پرکوئی فیصلے سنائیں گے