اچھے دن کا انڈیا شائننگ سے تقابل

چھائی ہر سو تیرگی جب انڈیا شائننگ کہا
دن میں تارے دیکھ کر سمجھا کہ اچھے دن گئے
اچھے دن کا انڈیا شائننگ سے تقابل
کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے ایک تقریبا فراموش کردہ نعرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے 2004 لوک سبھا انتخابات کی مہم کی یاد تازہ کردی ۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی کی حکومت دوسری معیاد حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھی اور اس وقت انڈیا شائننگ کا نعرہ دیا گیا تھا ۔ اس نعرہ کی زبردست تشہیر کی گئی تھی اور یہ تاثر عام کردیا گیا تھا کہ اس نعرہ کے ذریعہ عوام میں ہندوستان کی ترقی اور اس کے ابھرنے کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں گے ۔ سونیا گاندھی نے انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں حصہ لیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ جس طرح انڈیا شائننگ کے نعرہ نے بی جے پی کے حق میں کام کرنے کی بجائے بی جے پی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کیا تھا اسی طرح اچھے دن کا نعرہ بھی اب 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی حکومت کے حق میں کام کرنے کی بجائے اس کی مخالفت میں اثر انداز ہوگا اور کانگریس کی قیادت میںیو پی اے کو مرکز میں اقتدار حاصل ہوجائیگا ۔حالانکہ نریندر مودی اور بی جے پی اچھے دن کے وعدہ پر ایک مرتبہ اقتدار حاصل کرچکے ہیں اور اس طرح کے نعروں کو یہ لوگ اب فراموش بھی کرچکے ہیں۔ عوام سے 60 ماہ کے اقتدار کی اپیل کرنے والے نریندر مودی اب 2022 کے خواب دکھانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ وہ پہلے اپنے پانچ سال کا حساب پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ عوام کو اپنے سابقہ وعدے یاد دلانا چاہتے ہیں۔ یہ بات تقریبا یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اچھے دن کا نعرہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی یا اس کے قائدین یا خود وزیر اعظم کی جانب سے دہرایا نہیں جائیگا ۔ بی جے پی قائدین اور حکومت کے وزرا یہی چاہیں گے کہ عوام کسی طرح اس نعرہ کو فراموش کردیں تاکہ انہیں پھر 2022 کے خواب دکھائے جاسکیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ بی جے پی کے کچھ قائدین اور ایک موقع پر تو خود پارٹی صدر امیت شاہ نے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ صرف انتخابی جملے تھے اور حقیقت میں ایسا ہوتا کچھ نہیں ہے ۔ ایک وزیر نے تو اچھے دن کا وعدہ کرنے سے ہی انکار کردیا تھا ۔ اس صورتحال میں آئندہ انتخابات میں اچھے دن کا نعرہ بی جے پی یا اس کے قائدین کی جانب سے لگائے جانے کا امکان کم ہی ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں ہندوستان کی وہ حالت نہیں ہوئی تھی جو نریندر مودی کے اقتدار میں ہوئی ہے ۔ نوٹ بندی کے ذریعہ ملک کے عوام کو مجبور کردیا گیا ۔ مسلسل بینک اسکامس پیش آ رہے ہیں۔ حکومت کے قریبی حلقہ میں شامل رہنے والے افراد ہزاروں کروڑ روپئے قرض حاصل کرکے ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ ملک کی کسی بھی ریاست میں امن و سکون کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے ۔ اکثریتی ووٹ کا غلبہ اس حد تک ہوگیا ہے کہ ملک کی روایات اور تہذیب کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ فراموش کردیا گیا ہے ۔ روزگار کی بجائے عوام کے ہاتھ میںجھاڑو تھمادی گئی ہے اور کچھ فرقہ پرستوں اور جنونیوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ کسی مخالفانہ رائے اور ذہن کو قبول کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔ صرف ایک فاشسٹ سوچ کو ہر ایک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عدالتیں تک حکومت سے مطمئن نہیں ہیں اور عوام میں آکر شکایات کی جا رہی ہیں۔ ملک میں صنعتی پیداوار متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ جو ملازمتیں اورروزگار تھے وہ کم ہوگئے ہیں ۔ ان میں اضافہ کا امکان ہی نظر نہیں آتا ۔ روزگار کے نام پر عوام کو پکوڑے بیچنے کا مشورہ دیا جا رہاہے ۔ جی ایس ٹی کے ذریعہ تاجروں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔ اس میں اب تک بھی کوئی واضح صورتحال سامنے نہیں آئی ہے اور الجھن اور مشکلات برقرار ہیں۔ مسلمانوں اور دلتوں پر حملوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ انتخابات میںکامیابی کا جشن جنگ جیتنے کی طرح منایا جا رہا ہے ۔
یہ سب کچھ اچھے دن ہرگز نہیں ہوسکتے ۔ جس طرح سونیا گاندھی نے کہا کہ اچھے دن نریندرمودی کیلئے ویسے ہی ثابت ہونگے جیسے انڈیا شائننگ کی مہم اٹل بہاری واجپائی حکومت کیلئے ثابت ہوئی تھی ۔ ایسا ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے کانگریس کو صرف زبانی دعووں پر انحصار سے گریز کرنا ہوگا ۔ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اچھے دن کے وعدے اور اس کے برخلاف ہوئے عمل کے تعلق سے ملک بھر میں انتہائی شدت کے ساتھ مہم چلائے ۔ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے فاشسٹ نظریات کو عوام میں پروان چڑھانے کی مہم جارحانہ انداز سے چلائی جا رہی ہے ۔ اس کا اثر اسی وقت ٹوٹ سکتا ہے جب اپوزیشن جماعتیں بھی شدت کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش مسائل کو منظم انداز میں پیش کرنے میں کامیابی حاصل کریں۔ ان مسائل کو موثر ڈھنگ سے عوام کے سامنے پیش کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو پھر اچھے دن کا نعرہ مودی حکومت کی شکست کا سبب بن سکتا ہے ۔