اچھے دن ‘ امیت شاہ کا دعوی

جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اچھے دن ‘ امیت شاہ کا دعوی
گذشتہ عام انتخابات سے قبل کالا دھن واپس لانے اورعوام کے کھاتے میں لاکھوں روپئے جمع کروانے کے وعدہ کو محض ایک انتخابی جملہ قرار دینے والے بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے اب یہ دعوی کیا ہے کہ ملک میں اچھے دن آگئے ہیں۔ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ ملک میں گذشتہ لوک سبھا انتخابات کے بعد سے جتنے بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں ان میں بی جے پی کو مسلسل کامیابیاں مل رہی ہیں۔ ملک کے عوام کو اچھے دنوں کا تجربہ ہو رہا ہے اور وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے اسے کامیابیاں دلا رہے ہیں۔ یہ امیت شاہ کی اپنی منطق ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ امیت شاہ اور مودی کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنی ہی دنیا میں مست رہنا چاہتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں ملک کے عوام اسی کو سچ مان لیں۔ جہاں تک ان دونوں کا تعلق ہے وہ صرف اپنی نظر سے حالات کو دیکھنا چاہتے ہیں حقیقت کی نظر سے انہیں حالات کو دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت محسوس نہیںہوتی ۔ ان کی خوش بختی کی بات یہ ہے کہ ان کے حامی اور پرستار ابھی ان سے سوال کرنے پر نہیں اتر آئے ہیں۔ جب خود ملک کے عوام ان سے سوال کرنے لگیں گے تو انہیں احساس ہوگا کہ صرف جملہ بازیوں یا پھر فرضی دعووں سے حکومت کرنا سیاسی مستقبل کیلئے کتنا مضر ہوسکتا ہے ۔ امیت شاہ اگر ملک کی مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی انتخابی کامیابیوں کو اچھے دن سمجھتے ہیں تو یہ واقعتا بی جے پی کے اچھے دن ہیں لیکن ان اچھے دنوں کا ملک کے عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ملک کے عوام تو ان برے دنوں ہی کو یاد کررہے ہیں جب دال 70 روپئے فی کیلو کے آس پاس دستیاب ہوجاتی تھی اب دالیں 200 روپئے فی کیلو کے آس پاس فروخت ہو رہی ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں پر حکومت من مانی محاصل عائد کرتے ہوئے صرف اپنے خزانے بھر نے اسے جی ایس ٹی کے دائرہ سے باہر رکھا ہے ۔ پٹرولیم اشیا کی قیمتوںکا بالواسطہ اثر بیشتر اشیا پر پڑ رہا ہے ۔ حکومت اس کا احساس کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ نوٹ بندی کے مسائل اب سر ابھارنے لگے ہیں اور حکومت اس کو بھی ملک کی بہتری سے جوڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
امیت شاہ کو یہ لگتا ہے کہ صرف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرلینا اچھے دن ہیں تو یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے عوام کا ان اچھے دنوں سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ اچھے دن اگر فاشسٹ طاقتوں کے کہے جائیں تو یہ دعوی درست ہے کیونکہ جہاں کہیں اختلافی آواز بلند کی جا رہی ہے اس کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا رہا ہے ۔ اچھے دن اگر طلبا کے لاپتہ ہونے سے مراد ہیں تو واقعی یہ اچھے دن آگئے ہیں کیونکہ دہلی جیسے شہر سے یونیورسٹی کا ایک طالب علم لاپتہ ہوجاتا ہے اور سارے ملک کی انٹلی جنس ایجنسیاں اور پولیس اس کا پتہ چلانہیں سکتی ۔ اگر اچھے دن گئو دہشت گردوں کے مراد ہیں تو واقعی وہ اچھے دن آگئے ہیں کیونکہ یہ دہشت گرد گائے کے نام پر اپنی دوکانیں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں اور گاو رکھشا کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپئے ہڑپنے لگے ہیں۔ اگر اچھے دن سے مراد کارپوریٹ دنیا سے ہے تو واقعی اس کے اچھے دن ہیں کیونکہ بڑے کارپوریٹ اداروں کو ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضے فراہم کئے جارہے ہیں اور پھر فراموش کردیا جا رہا ہے ۔ ہزاروں کروڑ روپئے کا قرض رکھنے والوں کو ملک سے فرار کیا جا رہا ہے ۔ اگر اچھے دن سے مراد فرقہ پرست طاقتوں کے ہیں تو واقعی اچھے دن آگئے ہیں کیونکہ یہ طاقتیں دھڑلے سے ملک کے قانون اور دستور کی دھجیاں اڑا رہی ہیں اور نفاذ قانون کے ادارے ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاںہیں ۔ اگر اچھے دن سے مراد دائیں بازو کے تخریب کار عناصر کو مقدمات سے بچانے سے ہوں تو ان کے اچھے دن آگئے ہیں کیونکہ ملک کو دہلادینے والے تقریبا تمام دھماکوں میں ملزم ان دہشت گردوں کو ضمانتیں دلانے میں مدد کی جا رہی ہے ۔
جہاں تک عوام کا سوال ہے اچھے دن تو ان کیلئے محض خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ انہیں اب بتدریج احساس ہونے لگا ہے کہ ان کے اگر سابقہ دن برے دن تھے وہی بحال ہوجائیں تو ان کیلئے کافی ہے ۔ آج ملک کی معیشت کی یہ حالت ہے کہ جی ڈی پی کی شرح میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے ۔ کروڑوں نوجوان روزگار فراہمی کے وعدہ کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب تو یہ اندیشے بھی پیدا ہونے لگے ہیں کہ کسی دن اچانک امیت شاہ یہ اعلان نہ کردیں کہ کروڑوں نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی نے جتنے بھی انتخابی وعدے کئے تھے انہیں پورا کردیا گیا ہے ۔ یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش ہے اور اس سے اپنے چاپلوس حلقوں کی واہ واہی تو وصول کی جاسکتی ہے لیکن ملک کے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔